کیا پی ٹی آئی سے مذاکرات کا تیسرا دور آخری ثابت ہو گا؟

فریقین کی جانب سے اعتماد سازی کے فقدان، مطالبات کی عدم تکمیل، غیر سنجیدگی اور باہمی بیان بازی کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین تیسری بیٹھک کے ساتھ ہی مذاکراتی عمل کا دھڑن تختہ ہونے جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کے حوالے سے جلد یا بدیر تیسرا اجلاس تو ضرور ہوگا مگر اس میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان دکھائی نہیں دیتا جبکہ اسی دوران پی ٹی آئی قیادت یہ واضح کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام پر پیشرفت نہ ہوئی تو پھر مذاکراتی عمل معطل کر دینگے۔ ایسے مذاکرات کا کیا فائدہ جن میں مطالبات ہی پورے نہ کئے جائیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تمام تر اعتراضات کے باوجود خلاف معمولی جاری مذاکراتی عمل میں پی ٹی آئی قیادت پسپائی اختیار کرتی نظر نہیں آ رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے حوالے سے اس تاثر کی نفی کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ مذاکرات کی حامی نہیں اور بات چیت سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے تاکہ مستقبل کی حکمت عملی میں وہ یہ کہہ سکے کہ حکومت مذاکرات کیلئے تیار ہی نہیں تھی اور اگروہ بوجوہ تیار بھی ہوئی تو کسی غیر مرئی دباؤ کے تحت پیچھے ہٹ گئی۔ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی اب بھی مذاکرات کے تیسرے دور کی منتظر ہے۔ حکمت عملی کے تحت پی ٹی آئی رہنما تیسرے اجلاس میں باضابطہ حکومت سے کمیشن کے آپشن پر پیشرفت کا تقاضا کرینگے۔اور مثبت جواب نہ آنے پر وہ مذاکراتی عمل کو ڈھکوسلہ قرار دیکر اسکے خاتمہ کا اعلان کر دینگے۔
تاہم مبصرین کے مطابق حکومت نے پی ٹی آئی کی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اسی لئے مذاکراتی عمل معطل کرنے اور بیرونی مداخلت کی دھمکیاں دینے سے نہ تو جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور نہ ہی پی ٹی آئی قیادت کے جارحانہ بیانات اور اقدامات کی بدولت بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کسی قسم کا ریلیف مل سکتا ہے۔سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق مذاکرات کے ذریعے عمران خان کی رہائی کسی صورت ممکن نہیں ہوگی، تاہم اب تک تو پی ٹی آئی نے اپنے تحریری مطالبات مذاکراتی کمیٹی میں نہیں رکھے، جب پی ٹی آئی تحریری طور پر اپنے مطالبات سامنے رکھے گی اس کے بعد اس پر بحث ہو سکے گی، تب کچھ واضح ہوگا کہ پی ٹی آئی چاہتی کیا ہے تاہم اگر حکومت پی ٹی آئی کے مطالبے پر عمران خان کو رہا کردے تو پھر تو بات ہی ختم ہوجائے گی اور دیگر مطالبات کی ضرورت ہی نہیں پڑےگی۔ تاہم زمینی حقائق کے مطابق صرف مذاکرات کے ذریعے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی ناممکن ہے کیونکہ مقدمات میں سزاؤں کی وجہ سے عمران خان کی رہائی ایک قانونی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہو سکے گی، ان پر جو مقدمات قائم ہیں ان میں ضمانت ہوگی، ان کے خلاف کوئی فیصلہ آجاتا ہے تو پھر ان کو اپیل کرنی پڑےگی، یک طرفہ طور پر حکومت ان کو رہا نہیں کرسکتی، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ عدالت میں نرم رویہ اپنا لیں اور ان کی ضمانت ہونے دی جائے۔مجیب الرحمان شامی کے مطابق ہوسکتا ہے مذاکرات کے کسی ایک نتیجے پر پہنچنے کے بعد عمران خان کی رہائی ہو بھی جائے لیکن اگر پی ٹی آئی کی جانب سے فوری ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے تو مذاکرات وہیں منقطع ہو جائیں گے ۔
تاہم سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان جو مذاکرات ہورہے ہیں وہ چلیں گے لیکن ان کی کامیابی کے حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔انہوں نے مزید کہاکہ پی ٹی آئی کے مطالبے پر عمران خان کی رہائی کا مطلب پی ٹی آئی کو بہت بڑا ریلیف دینا ہے، تاہم اگر انہیں بنی گالہ منتقل کردیا جاتا ہے تو یہ بھی بڑا ریلیف ہوگا۔ انصار عباسی کے مطابق یہ سب صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے عمران خان، پھر تمام پارٹی اور کارکنان فوج کے خلاف پروپیگنڈا مہم بند کردیں، اس کے علاوہ پی ٹی آئی قیادت کو ملکی معیشت پر حملوں کو بھی بند کرنا ہوگا، جبکہ موجودہ حکومتی نظام کو بھی قبول کرنا ہوگا تب ہی عمران خان کی بنی گالہ منتقلی یا رہائی ممکن ہوسکے گی۔
190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ تیسری بار بھی ملتوی کیوں ہو گیا؟
انصار عباسی کے بقول جب تک عمران خان اور ان کی پارٹی یہ کام نہیں کریں گے اس وقت تک انھیں کوئی ریلیف نہیں مل سکتا جبکہ عمران خان کی رہائی کی بات تو بہت دور ہے، یہ بہت بڑا اقدام ہوگا، اس کے لیے پی ٹی آئی کو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔تاہم پی ٹی آئی جو کچھ پہلے کرتی رہی ہے اگر وہ اس قسم کی حرکات یا حتیٰ کہ بیانات بھی دیتے رہے تو نہیں لگتا کہ عمران خان کو رہائی ملے یا تحریک انصاف کے کسی دوسرے مطالبے پر غور بھی کیا جائے۔