کیا اختلاف رائے پر صحافیوں کو قتل کر دینا جائز ہے؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کو کسی صحافی کی تحریروں یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا اس بنیاد پر اسے قتل کر دینا جائز ہے۔ ارشد شریف نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا اور نہ آخری کیونکہ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور بات ایک قتل پر آ کر نہیں رکتی، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان دنیا کے ان تین خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے جہاں صحافیوں کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں اور صحافت کے حوالے سے اسلام آباد کو دنیا کا خطرناک ترین شہر کہا جاتا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پہلے کبھی کوئی پاکستانی صحافی ملک سے باہر قتل ہوا ہو۔ ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو ملک سے باہر گیا اور وہاں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے کہ نہ کبھی کسی صحافی کے قاتل پکڑے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کچھ نہیں نکلتا۔ مظہر عباس کہتے ہیں کہ میں نے کراچی میں کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989سے لے کر 2022 تک کراچی سے خیبر تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل ہوا مگر تین کیسوں کے سوا نہ کوئی قاتل پکڑا گیا اور نہ ہی کوئی ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کا منیر سانگی یاد ہے جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا۔ مجھے اسکی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد کے باوجود انصاف نہ ملنے پر کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میں نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور اس کی درخواست تب کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار تک پہنچائی، مگر اسے نہ تو انصاف ملنا تھا اور نہ ہی ملا۔ ہمارے ایک اور صحافی ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش ان کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ حیات اللہ کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جو ان کے شوہر کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ حیات کی بیوہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک اور نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لا سکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اسی طرح ایشیا ٹائمز سے وابستہ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ اسلام آباد میں ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا لیکن واپس نہیں آیا۔ صبح اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو اس کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ بعد ازاں اس کی لاش منڈی بہاؤالدین کی ایک نہر میں گاڑی سمیت ملی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ قتل کس نے کیا۔ اس پراسرار قتل پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا جس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ہر دور حکومت میں صحافی اغوا ہوئے، اٹھائے گئے، دھمکیاں بھی ملیں اور گمشدہ بھی ہوئے۔ کچھ بد قسمت صحافی قتل بھی ہوئے اور سب جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے نامعلوم افراد کون ہیں، لیکن حکمران اپنی اپنی حکومتیں بچانے کی خاطر کوئی ایکشن نہیں لیتے۔

مظہر عباس کے بقول تحریک انصاف کی حکومت کے دوران شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی ایک قانون سندھ اسمبلی نے بھی بنایا ہے۔ اب اسلام آباد جوڈیشل کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اتنے برسوں میں ہم لوگوں نے صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

Related Articles

Back to top button