حکومت سے اختلافات کے بعد یوسف رضا گیلانی باہر چلے گئے

معروف صحافی اور تجزیہ کار رؤوف کلاسرا نے کہا ہے کہ حکومت اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے مابین پی ٹی آئی کے اسیر سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں جس کے بعد وہ ناراض ہو کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔

اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں کلاسرا کہتے ہیں کہ آج کل خبر گرم ہے کہ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ اجلاس کی صدارت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ احتجاجاً ایسا کر رہے ہیں ۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس احتجاج کی وجہ وہ فیصلہ ہے جو سید یوسف رضا گیلانی نے بطور چیئرمین سینیٹ چند روز قبل دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے سینیٹ میں کہا تھا کہ ان کے اسیر سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آڈر جاری کر کے انہیں ہاؤس میں بلایا جائے۔ گیلانی صاحب نے پروڈکشن آڈرز جاری کیے اور کہا کہ ہاؤس کے ممبر کو پیش کیا جائے لیکن حکومت نے ان احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہوئے سینیٹر اعجاز چودھری کو ہاؤس میں پیش نہیں کیا۔

گیلانی صاحب کے پاس اب دو‘ تین آپشنز تھے۔ پہلا آپشن تھا کہ وہ ہاؤس میں جا کر پروڈکشن آرڈرز دوبارہ جاری کرتے‘ دوسرا آپشن تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتے‘ تیسرا آپشن تھا کہ وہ ہاؤس میں اجلاس کی صدارت سے انکار کر دیتے کہ اُس ہاؤس میں نہیں جاؤں گا جہاں میرے احکامات پر عمل نہیں کیا جاتا۔ یا پھر گیلانی صاحب ایسے ظاہر کرتے کہ جیسے انہوں نے کبھی کوئی پروڈکشن آرڈرز جاری ہی نہیں کیے تھے اور کام چلاتے رہتے۔ گیلانی صاحب نے ان سب میں سے ہاؤس کی صدارت نہ کرنے کو بہتر سمجھا اور بیرون ملک چلے گئے‘ یوں وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں کہ اگر ان کی اتنی بات بھی نہیں مانی جانی تو وہ کیونکر ہاؤس میں جائیں۔

رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے حالانکہ انہیں خود بھی خدشہ ہو گا کہ شاید ان پر عمل نہ ہو سکے۔ اس کی وجہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایشو حکومت سے زیادہ کسی اور کا ہے۔ فیصلہ حکومت نے کرنا ہوتا تو وہ شاید دیر نہ لگاتی کہ سینیٹر صاحب کو ہاؤس میں پیش کر دیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سینیٹ آف پاکستان‘ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی یا وزیراعظم شہباز شریف کا وقار اتنا غیر اہم ہے کہ پوری دنیا کو دکھا دیا گیا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو‘ ہم یہ حکم نہیں مانتے؟ ویسے اگر اعجاز چودھری کو ہاؤس میں پیش کر بھی دیا جاتا تو کون سی قیامت آ جانی تھی۔ جیل میں قید سینیٹر اعجاز چودھری حکومت یا فوج کا ایک تقریر سے کیا بگاڑ لیتے؟ زیادہ سے زیادہ وہ ایک گھنٹے کی تقریر کرتے‘ حکومت کے بیانیے کو تنقید کا نشانہ بناتے‘ اپنے ساتھ جیل میں ہونے والے سلوک یا اپنے اوپر بنائے گئے مقدمات پر گرجتے برستے‘ عمران خان سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے‘ اپنے لیڈر کو مہاتما بنا کر پیش کرتے جس کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں‘ اور یہ کہ وہ خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے چاہے انہیں ساری عمر جیل میں رکھا جائے وغیرہ وغیرہ۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ عمران خان میڈیا سے جو دھواں دھار گفتگو کرتے ہیں‘ کیا اس سے حکومت یا فوج کو کچھ فرق پڑا جو سینیٹر اعجاز چودھری کی تقریر سے پڑ جاتا؟ کیا وہ عمران خان سے زیادہ سخت گفتگو کر سکتے ہیں؟ دوسری طرف یوسف رضا گیلانی کی ان معاملات میں ایک تاریخ ہے۔ جب وہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں سپیکر قومی اسمبلی تھے تو اُس وقت وزیراعظم بینظیر بھٹو سے ان کی اُس وقت اَن بن ہو گئی تھی جب انہوں نے جیل میں قید ہاؤس کے چند ممبران کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے تھے۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو ان احکامات کو ماننے سے انکاری ہو گئی تھیں۔ اُس وقت نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں چپلقش عروج پر تھی۔ پنڈی کے شیخ صاحب ہاؤس میں بی بی پر بڑے نازیبا جملے کستے تھے۔ ملتان کے بھی دو ایم این ایز جیل میں تھے۔ ہاؤس کے اندر نواز لیگ کے ممبران روز شور ڈالتے تھے کہ ان کے سیاسی قیدیوں کو ہاؤس میں لایا جائے۔ یوسف رضا گیلانی اس معاملے میں اُس وقت بھی ہاؤس کی برتری کے قائل تھے۔ انہوں نے نواز لیگ کے اسیر ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر دیے کہ انہیں ہاؤس میں لایا جائے لیکن وزیراعظم بینظیر بھٹو اس بات پر ناراض ہوگئیں کہ ان کا اپنا لایا سپیکر اپوزیشن کا ساتھ دے رہا ہے۔ یوں اس وقت کے سپیکر یوسف رضا گیلانی اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مابین ایک کشمکش شروع ہو گئی۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ گیلانی پر دباؤ تھا کہ وہ پروڈکشن آرڈرز پر زور نہ دیں۔ جب بینظیر حکومت نے ان پروڈکشن آرڈرز پر عمل کرنے سے انکار کیا تو یوسف رضا گیلانی نے تب بھی قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک ممبران ہاؤس میں نہیں لائے جاتے‘ اس وقت تک وہ بھی ہاؤس میں نہیں جائیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس اور سپیکر آفس کے مابین کچھ دن تک یہ جھگڑا چلتا رہا۔ پھر درمیان میں کچھ وزیر پڑے اور بینظیر بھٹو کو قائل کر لیا کہ وہ سپیکر کو عزت دیں اور ان کے آرڈرز کو مانیں‘ اپنے ہاؤس اور اپنے سپیکر کی عزت بنائیں۔ اسی میں حکومت‘ ہاؤس اور جمہوریت کی عزت ہے۔ بے نظیر چونکہ ضدی خاتون نہیں تھی اس لیے انہوں نے یوسف رضا گیلانی کا موقف تسلیم کر لیا۔

بشریٰ بی بی نے عمران کے کان بھر کر گنڈاپور کی چھٹی کیسے کروائی

رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ گیلانی صاحب شاید اسی بھول میں اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر بیٹھے کہ جیسے بینظیر بھٹو نے انکی عزت رکھ لی تھی، شہباز شریف بھی ویسے ہی کریں گے۔ لیکن گیلانی صاحب شاید یہ بھول گئے کہ شہباز شریف بینظیر بھٹو والا فہم دکھانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

Back to top button