’حصول اقتدار‘ واحد منشور
تحریر:مظہر عباس، بشکریہ :روزنامہ جنگ
’الیکشن ولیکشن‘ میں کہاں پڑگئے آپ، انتخابات ہورہے ہوتے تو ’منشور‘ بھی آتے زور و شور سے انتخابی مہم بھی چل رہی ہوتی، بحث مباحثے کی فضا بھی نظر آرہی ہوتی۔ ابھی تو میاں صاحب نے ایک جلسہ ہی کیا اور ’ذاتی مصروفیت‘ کے باعث دوسرا ملتوی کر دیا البتہ مریم نواز بھرپور جلسے کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری کے ’تیروں‘ کا رخ ’شیر‘ کی طرف ہے۔ لگتا ہے دونوں کی ’سیاسی جنگ‘ کا حصول ’اقتدار‘ ہے یعنی کون بنے گا ’وزیر اعظم‘ 8؍فروری کو… میاں محمد نوازشریف، بلاول بھٹو یا کچھ ’سرپرائز‘ بھی ہو سکتا ہے۔
ایک تیسری سیاسی جماعت کو مکمل طور پر الیکشن دوڑ سے باہر کیا جا رہا ہے۔ آزاد بھی آزاد نہیں۔ لیڈر آئوٹ، پارٹی آئوٹ، انتخابی نشان آئوٹ، جلسے جلوس تو دور کی بات آن لائن جلسہ ہوتا ہے تو انٹرنیٹ بیٹھ جاتا ہے ایسے میں پاکستان تحریک انصاف نے ایک طرح سے زیر زمین، انتخابی مہم شروع کی ہوئی ہے مگر الیکشن کے دن ’پولنگ ایجنٹ‘ کیسے کام کریں گے۔ ووٹر نکل بھی آیا تو کہاں جائے گا۔
اس پس منظر میں ہو رہا ہے 8؍فروری کا الیکشن مگر پھر بھی نہ جانے کیوں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی ’فارم‘ میں نظر نہیں آ رہے۔ مجھے لگتا ہے ’لندن‘ میں جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اور ’مکمل اختیار والا اقتدار‘ نہیں دیا جا رہا۔ شاید یقین دہانیاں کرانے والوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ پنجاب، اس حد تک بدل گیا ہو گا۔ 2013ء کے الیکشن میں پی پی پی کو بھی یقین نہیں تھا کہ ان کو انتخابات میں ایسی بری شکست پنجاب میں نصیب ہو گی اور وہ اس خام خیالی میں رہے کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کا ووٹ لے جائے گی۔ اب بلاول بھٹو نے بہتر سیاسی فیصلہ کیا لاہور سے لڑنے اور پنجاب میں واپس قدم جمانے کا۔ اس الیکشن میں نہیں تو آنے والے سالوں میں اگر اپنی سیاست میں کچھ تبدیلی لائے تو کسی حد تک واپسی ممکن ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو اقتدار سے باہر کرنے میں دونوں متفق تھے جس میں کسی حد تک خود خان صاحب کی کم غلطیاں نہیں وہ بھی ان دونوں جماعتوں اور شریفوں، زرداری کو الیکشن ریس سے بلکہ سیاسی ریس سے باہر کروانا چاہتے تھے پہلے جنرل باجوہ کے ذریعہ پھر جنرل فیض کے طور طریقوں سے۔ یہی وہ سیاسی ’دائرے‘ ہیں جس میں سیاست گھوم رہی ہے۔ بہرحال عمران آئوٹ ہو گئے اپریل 2022ء میں اور اس وقت سے واپسی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی 17ماہ کی حکومت نے جو کام کیے اس نے عمران کو ایک بار پھر مقبول ترین بنا دیا۔ میاں نواز شریف آج سے تین سال پہلے ’علاج‘ کی غرض سے خان صاحب کی منظوری سے عدالت کی اجازت سے ’لندن‘ گئے تو انہیں اندازہ نہ تھا کہ واپس آئیں گے تو بھائی کی پالیسیوں کی وجہ سے پنجاب بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ واقعی شہباز شریف نے سچ ہی تو کہا تھا کہ ’ہم نے اپنی سیاست قربان کر دی‘ اب ریاست کو کیسے بچایا یہ تو کوئی اسحاق ڈار صاحب سے پوچھے۔ میاں صاحب نے 2013 کے بعد اپنے قریب ترین ساتھی چوہدری نثار علی خان کو کھویا اور 2023 میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، قریب قریب محمد زبیر اور آصف کرمانی بھی ہاتھ سے گئے نہیں تو ناراض تو یقینی طور پر ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) اور خاص طور پر میاں صاحب کو لولی لنگڑی حکومت دلوا بھی دی گئی تو وہ کیا خود وزیر اعظم بننا پسند کریں گے، اس سوال کا جواب چند دنوں میں آ جائے گا۔ شریفوں کیلئے وزارت عظمیٰ سے زیادہ ’تخت پنجاب‘ ضروری ہے۔
اس وقت میدان میں جتنی بھی جماعتیں اور رہنما ہیں سب کا ایک ہی منشور ہے، ایک ہی دستور ہے ’حصول اقتدار‘ 8فروری کے الیکشن تو ویسے بھی ماورائے آئین ہو رہے ہیں ورنہ تو اب تک ایک منتخب حکومت کو تین ماہ ہو چکے ہوتے۔ زرداری صاحب کی سیاست 8فروری کے بعد شروع ہو گی ’نمبر گیمز‘ کے وہ ماسٹر ہیں اور یہی ان کی سیاست کا محور ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔ اب وہ کیا صرف بلاول کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں یا کچھ اپنے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔ تھوڑا انتظار… یہ سب باتیں میاں صاحب کو بھی پتا ہیں اور انہیں اب تک زرداری کی سیاست کا خاص حد تک علم بھی ہے۔ شاید یہی میاں صاحب کی پریشانی کا سبب بھی ہے۔ جب پنجاب میں خود انہوں نے صرف ایک دو جلسے کئے ہوں تو یہ سمجھنے کیلئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہئے کہ ’’آل از ناٹ ویل‘‘۔
منشور ان جماعتوں کے آ گئے ہیں جو اقتدار میں حصہ دار تو ہو سکتی ہیں برسراقتدار نہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی کا منشور ان کے طرز سیاست سے مختلف نہیں پہلے بھی لکھا اور اب بھی کہتا ہوں اتنی منظم اور ڈسپلن جماعت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ انتخابی سیاست کے طور طریقوں سے دور نظر آتی ہے۔ اس سوال کا جواب وہ خود تلاش کرے کہ انہیں ووٹ کیوں نہیں پڑتا۔ ایم کیو ایم کا بھی منشور ان کی سیاست کی طرح کا ہے چونکہ ان کی سیاست خود قومی سطح کی نہیں ہے تو وہ سندھ تک ہی محدود ہے۔
وقت وقت کی بات ہے ایک زمانہ تھا جب مکمل منشور لایا جاتا تھا۔ پانچ سالہ پلان پیش کیا جاتا تھا۔ پارٹیوں میں جمہوریت نہ سہی کم از کم جنرل ورکرز اجلاس میں کارکردگی اور حساب پر سوالات تو ہوتے تھے۔ اب مرکزی مجلس عاملہ ہے مگر ہر جماعت نے اپنی اپنی ’کور کمیٹی‘ بنالی ہے۔ جو طریقہ کار ان جماعتوں نے جمہوریت کا اپنی پارٹیوں میں رائج کیا ہوا ہے اب وہی پورے ملک میں نافذ ہو رہا ہے یعنی ’اقتدار‘ میں کیسے آیا جا سکتا ہے جس کیلئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔
کیا آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہے۔ جی ہے ’آج اقرار کریں اور خلش مٹ جائے‘ سب اپنی اپنی غلطیوں کا کھل کر اعتراف کریں۔ میثاق سیاست، میثاق دستور، میثاق معیشت، میثاق تعلیم و صحت پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ سول، ملٹری تعلقات پر تو تینوں بڑی جماعتیں کسی نتیجہ پر پہنچ سکتی ہیں۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور بااختیار بلدیاتی نظام۔ اب ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے نہ کریں ان سب پر متفق ہوں تو دستخط تو کرسکتے ہیں ایک دوسرے کو گالی دینا تو بند ہو سکتا ہے۔
میں نے یہ بات پہلے بھی لکھی تھی اور اب بھی کہہ رہا ہوں ’پاکستان‘ کو اسٹیٹ بنانا تھا ہم نے ’رئیل اسٹیٹ‘ بنا دیا۔ اسی لیے آج بلڈرز سیاست میں بھی ہیں اور صحافت میں بھی لہٰذا تعلیم ملے نہ ملے، صحت کی سہولتیں میسر ہوں نہ ہوں، پینے کا صاف پانی آتا ہو یا نہیں صحافیوں کو پلاٹ اور عوام کو مکان دینےکا وعدہ تو کر لیا گیا ہے۔ ہم اصل پاکستان سے بہت دور چلے گئے ہیں جمہوریت محض مفادات کا ٹکرائو بن کر رہ گئی ہے۔ دیکھتے ہیں 8فروری کو ’کونسی جمہوریت‘ کا سورج طلوع ہوتا ہے اور کونسی جمہوریت غروب ہوتی ہے۔