ایجنسی کے پیدا کردہ عمران کی جاسوسی کون کروا رہا تھا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے گھر کے ایک ملازم کو ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کے الزام میں پکڑے جانے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر ایجنسیوں کو اپنے ہی پیدا کردہ سیاستدان کی جاسوسی کروانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی اور یہ کام کونسی ایجنسی کروا رہی تھی؟ دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے مطابق اس معاملے کی تفتیش تو شروع کر دی گئی ہے لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آ پائی۔
پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ لاجز خالی کرانے کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع
ترجمان اسلام آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جس شخص کو بنی گالہ ہاؤس سے جاسوسی کے الزام میں پولیس کے حوالے کیا گیا ہے وہ ’ٹھیک سے بات نہیں کر سکتا جس وجہ سے اس شخص کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔‘ عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم کی رہائشگاہ پر انھی کے ایک ملازم نے ان کے ’کمرے میں جاسوسی کی ڈیوائس لگانے کی ناکام کوشش کی۔‘ شہباز گل نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران ایک ریکارڈنگ ڈیوائس دکھائی اور کہا کہ ’اس کا کام پورے کمرے میں ہونے والی بات چیت ریکارڈ کرنا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اس ملازم کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم بعد میں اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ شخص 6 برس سے بنی گالہ کی رہائش گاہ میں بطور ملازم کام کر رہا ہے۔ پولیس نے اس شخص کی جسمانی اور دماغی حالت جاننے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کا فیصلہ کیا ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بنی گالہ ہاؤس میں کام کرنے والے ملازمین کی شناخت ایک چیلنج ہے کیونکہ اسلام آباد پولیس کو بنی گالہ ہاؤس میں تعینات ملازمین کی لسٹ ابھی تک فراہم نہیں کی گئی۔ جب تھانہ بنی گالہ رابطہ کیا تو وہاں موجود پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ تاحال ایف آئی آر کے اندراج کے لیے انھیں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
لیکن شہباز گل کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی رہائشگاہ پر چھ سال سے صفائی کا کام کرنے والے ایک 23 سال کے ملازم نے ان کے کمرے میں جا کر ایک ریکارڈنگ ڈیوائس پلانٹ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اس شخص کو تقریباً تین ماہ قبل ’50 ہزار روپے دے کر کہا گیا کہ ڈیوائس لگانی ہے جس کے بدلے اور پیسے ملیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس ملازم کے پاس عمران خان کے کمرے تک رسائی نہیں تھی تو اسے یہ کام بھی دیا گیا کہ جس ملازم کی رسائی ہے اس کے ساتھ رابطہ کرایا جائے۔
ایک ریکارڈنگ ڈیوائس دکھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں ایک باریک مائیک ہے جسے اگر کمرے میں آن کر کے رکھ دیا جائے تو یہ پورے کمرے میں ہونے والی بات چیت سن سکتی ہے۔ ’یہ پاس ورڈ پروٹیکٹڈ ہے اور اسی سافٹ ویئر اور پاس ورڈ کے ساتھ چلتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ اس پر پولیس کی کارروائی ہونی چاہیے تاہم عمران خان نے اس شخص کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ’ہوسکتا ہے اس پر دباؤ ہو، جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہو۔‘
اس گفتگو کے دوران شہباز گل کے ہمراہ اس مبینہ ملازم کو سر پر کپڑا ڈال کر بٹھایا گیا تھا جس نے بتایا کہ وہ چھ سال تک عمران خان کی رہائش گاہ پر کام کرتا رہا اور اسے 25 ہزار تنخواہ ملتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ یہ ڈیوائس لگانے کے لیے لے کر آیا تھا مگر اسے لگانے سے پہلے وہ پکڑا گیا۔ عمران خان کے چیف آف سٹاف نے یہ مبینہ ریکارڈنگ ڈیوائس بھی دکھائی ہے جسے بنی گالہ ہاؤس میں ’پلانٹ‘ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ڈیوائس ایک کورین کمپنی کی تیار کردہ ہے جس کے ماڈل کا نام ’ایم کیو-یو350‘ ہے۔ اگرچہ اسے جاسوسی کی ڈیوائس کا نام دیا جا رہا ہے تاہم کمپنی کی ویب سائٹ پر اسے ایک ’ڈیجیٹل وائس ریکارڈر‘ اور ’منی یو ایس بی ریکارڈر‘ کہا گیا ہے جو 24 گھنٹوں تک لگاتار کام کرسکتا ہے۔
اس کی خصوصیات میں لکھا گیا ہے کہ ساؤنڈ ڈیٹیکشن کے لیے اس میں ’ایس وی او ایس‘ یا سپیریئر وائس آپریٹڈ سسٹم ہے۔ اس میں 180 ایم اے ایچ کی ریچارج ایبل بیٹری موجود ہے جسے کمپنی کے مطابق دو گھنٹے میں اسے فُل چارج کیا جاسکتا ہے اور یہ پراڈکٹ 25 دن تک سٹینڈ بائی پر رہ سکتا ہے۔ اس میں آٹھ، 16 اور 32 جی بی میمری کے الگ الگ ماڈل دستیاب ہیں۔ اس میں ایک سرخ رنگ کی لائٹ بھی ہے جو چارجنگ کے علاوہ ریکارڈنگ شروع کرنے یا یو ایس بی کے کمپیوٹر سے نکالے جانے کا اشارہ دیتی ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ ڈیوائس قریب 60 ڈیسیبل تک کی آواز سن سکتی ہے۔ امریکی سینٹر فار انوائرمنٹل ہیلتھ کے مطابق عموماً دو لوگوں کے درمیان ایک عام گفتگو 60 ڈیسیبل پر ہوتی ہے جبکہ سرگوشی کی آواز قریب 30 ڈیسیبل پر ہوتی ہے۔ اس میں موجود یو ایس بی کی مدد سے اسے کسی کمپیوٹر پر لگایا جاسکتا ہے جبکہ دوسری طرف موجود ڈائل یا سوئچ سے آن، آف یا ’وائس ایکٹیویٹڈ‘ میں سے کسی ایک آپشن کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ اس کی خاص بات ایک سیٹنگ ہے جس کی مدد سے یہ ڈیوائس صرف تبھی ایکٹیویٹ ہوتی ہے جب اردگرد آواز سنائی دے۔ اسی سیٹنگ کی مدد سے اس کی بیٹری کا دورانیہ طویل کیا جاسکتا ہے۔
اسے کمپیوٹر پر لگا کر اس کے اپنے سافٹ ویئر میں سب سے پہلے تاریخ اور وقت درج کیے جاتے ہیں جس کے بعد یہ استعمال کے لیے تیار ہوجاتی ہے اور اس سے کی گئی آڈیو ریکارڈنگ اسی میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ ای کامرس ویب سائٹس ایمازون اور ای بے پر یہ ڈیوائس 80 ڈالر یعنی قریب 16 ہزار روپے میں دستیاب ہے اور اسے بچوں یا دفتر کے ملازمین کی نگرانی، گھریلو ملازمین یا شریک حیات کی آواز کی خفیہ ریکارڈ کے پراڈکٹ کے طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس ڈیوائس کی خصوصیات اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ شیئر کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ناقدین کا دعویٰ ہے کہ یہ کوئی اچھا جاسوسی کا سامان نہیں۔ ’بوٹ سافین‘ نامی پی ٹی آئی سپورٹر نے لکھا ہے کہ یہ ڈیوائس ’ایمازون پر 80 ڈالر کی فروخت ہو رہی ہے اور اس کی ریٹنگ 3.6 ہے۔ نیوٹرلز نے چھوٹی انویسٹمنٹ کی ہے۔‘
سیف ایوان نامی صارف نے رائے دی کہ ’ملازم عمران خان کے گھر چھ سال سے کام کر رہا تھا۔ مطلب ملازم عمران خان کے وزیراعظم بننے سے قبل کا ان کے گھر کام کر رہا ہے۔ جب عمران وزیراعظم تھا تب ملازم نے جاسوسی نہیں کی اور اب عمران کچھ بھی نہیں تو ملازم اب جاسوسی کرے گا؟ انتہائی فلاپ فلم۔‘