تحریک انصاف کی اندرونی لڑائی نے الیکشن خطرے میں کیسے ڈالا؟
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخوست پر لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے ان کی جاری ٹریننگ کو روک دیا ہے جس کے بعد ملک میں عام انتخابات کا بروقت انعقاد غیر یقینی ہو گیا ہے. جس کے بعد ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور اس کی دوغلی سیاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے . تحریک انصاف کی اندرونی سیاست سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ساری صورت حال پارٹی کے بانی عمران خان کے جیل جانے کے بعد معاملات وکلاء کے ہاتھوں میں جانے کا نتیجہ ہے . تحریک انصاف اس وقت اندرونی طور پر شدید اختلافات کا شکار ہے اس وقت پی ٹی آئی میں دو طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ موجودہیں ۔ایک وہ جو پی ٹی آئی کے پرانے کارکن ہیں اور کیسز میں الجھے ہوئے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ فوری طور پر الیکشن ہوں ۔کیونکہ وہ صرف پی ٹی آئی کے بانی کو ہی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہیں ۔دوسرے لوگ وہ ہیں جو ابھی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں ۔جن میں زیادہ تر وکلا ہیں جن کاان دنوں پی ٹی آئی پر قبضہ ہے یا کرایا گیا ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن فوری طور پر ہوں تاکہ وہ اسمبلیوں میں پہنچ سکیں،پی ٹی آئی میں ان نئے شامل ہونے والوں کے پیچھے کون کونسی پارٹی چھپی ہوئی ہے ۔اس کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتامگر سوال یہ ہے کہ ایک طرف لوگ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے باوجود اسے چھوڑ کر جارہے ہیں، دوسری طرف شامل ہورہے ہیں ۔ عوام کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔
یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن رکوانے کے لئے پی ٹی آئی کے کہنے پر طالبان دہشت گردی کر رہے ہیں پی ٹی آئی کی پارٹی پالیسی افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنے کے خلاف ہے ۔اس کے نزدیک وہ مہاجرین جو بہت پہلے کے آئے ہوئے ہیں انہیں پاکستانی نیشنلٹی دے دی جانی چاہئے جیسے یورپ میں مہاجرین کو دی جاتی ہےاور اسی سبب مہاجرین بھی پی ٹی آئی کیلئے ہمدردی رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے پرانے رہنماؤں اور کارکنوں سمجھتے ہیں جہاں تک پی ٹی آئی کے وکلا کی بات ہے تو انہیں سیاست کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے سیاست دانوں کو جیلوں سے نکلوانے کیلئے عدالتوں میںکیس لڑنے چاہئیں ۔نو مئی کے واقعات میں جو بے گناہ گرفتار ہیں انہیں رہا کرانا چاہئے نہ کہ وہ پارٹی پر اپنے قبضے کو طوالت دینے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں. دوسری طرف اہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعدپیداشدہ صورتحال پر غور کیلئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت جمعرات کو اہم مشاورتی اجلاس ہوا‘ اجلاس میں یہ بات واضح کی گئی کہ الیکشن کمیشن 8 فروری کو انتخابات کرانے کے فیصلے پرقائم ہے‘ تمام تیاریاں مکمل ہیں اور اس ضمن میں تمام اہداف کو بھی مکمل کیا جارہا ہے ۔ اجلاس میں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کے اعلان سے پہلے کی تیاریاں مکمل کر چکا ہے ‘اجلاس میں صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک جامع لائحہ عمل کی تیاری کا فیصلہ کیا گیا تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان نے یہ بات واضح کی ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ جانے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی پریس کانفرنس کے دوران انتخابات ملتوی کرانے کے سلسلے میں کمیشن پر الزامات کو الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا ہے اور اس کو عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش قرار دیا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ موجودہ صورتحال کا الیکشن کمیشن کو کسی طور بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔واضح رہے کہ عدالتی حکم کے بعد جمعرات کو الیکشن کمیشن نے پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان کے الیکشن کمشنرز کو ہنگامی مراسلے بھیج کر ریٹرننگ افسران اور دیگر عملے کی تربیت رکوادی. الیکشن کمشن کے ان اقدامات کے بعد تحریک انصاف کے رہنماعلی ظفرنے کہاہے کہ ہمارا پٹیشن دائر کرنے کا بالکل یہ مقصد نہیں تھا کہ الیکشن میں تاخیر ہو بلکہ میرا خیال ہے شاید ہم یہ درخواست واپس لے لیں تاکہ یہ آرڈر نہ رہے ‘ایک انٹرویو میں علی ظفرکا کہناتھاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور ہونے چاہئیں لیکن یہ جو بیچ میں اسٹے آرڈر آیا ہے اس سے الیکشن کے التوا کا تاثر مل رہا ہے اس لیے میرا خیال ہے اس اسٹے آرڈر کو ختم کرنا چاہیے‘ اس کو واپس لینا چاہئے ‘دوسری جانب مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی ملک میں 8 فروری کے انتخابات کو ملتوی کرانے کی سازش کر ر ہی ہے،پی ٹی آئی کی درخواست عوام کی ترجمانی کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے،الیکشن کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستیں الیکشن سے فرار کی منصوبہ بندی ہے‘سائفر کی طرح پی ٹی آئی 8 فروری کے عام انتخابات کے خلاف سازش کر رہی ہے‘پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح دوغلی، دوہری اور منافقانہ پالیسی پر کاربند ہے ، پی ٹی آئی 8 فروری سے فرار کی راہیں تلاش کررہی ہے ۔ پی ٹی آئی میڈیا میں الیکشن جلد کرانے کے مطالبے کرتی ہے جبکہ عملی طورپر عدالتوں میں تاخیر کی پٹیشنز کرتی ہے، 2018ء کے انتخابات میں بھی بیوروکریسی نے ہی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی ذمہ داری نبھائی تھی۔ ترجمان پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ انتخابات 8فروری کو ہی ہونے چاہئیں ‘الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں سنیں گے ‘ استحکام پاکستان پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ ڈی آر اوز اور آر اوز کی ٹریننگ روکنے کی درخواست نے خوفزدہ پی ٹی آئی کا پول کھول دیا ہے