تعلیم سے محروم کروڑوں پاکستانی بچوں کا مستقبل کیا ہے؟

دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان میں سوا دو کروڑ سے زائد بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں، اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف اور پاکستانی ادارہ برائے ترقیاتی معیشت (PIDE) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں، جو اپنی مجموعی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کے سب سے زیادہ تناسب والی ریاستوں میں سے ایک ہے، تقریباً 22.8 ملین یا دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں تو سکول جانے کی ہیں مگر جو حصول تعلیم کے لیے سکول نہیں جاتے۔یہ تقریباً 23 ملین پاکستانی لڑکے لڑکیاں ملک میں پانچ سے لے کر سولہ برس تک کی عمر کے نابالغ شہریوں کی مجموعی تعداد کا 44 فیصد بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں سکول جانے کی عمر کا تقریباً ہر دوسرا بچہ پڑھائی کے لیے کسی بھی سکول میں جاتا ہی نہیں۔ یوں مسلم اکثریتی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک پاکستان اس حالت میں نہیں ہے کہ اپنی آج کی نابالغ نسل کی مناسب تربیت کرتے ہوئے ان چیلنجز کا کامیابی سے سامنا کرنے کی تیاری کر سکے، جو اسے مستقبل قریب میں درپیش ہوں گے۔اقصادی منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق پاکستان اپنے ہاں پڑھائی سے محروم کروڑوں بچوں کے لیے حصول تعلیم کو یقینی بنانے میں مسلسل ناکامی کے باعث مستقبل قریب میں لازمی طور پر ایسے حالات کا شکار ہو جائے گا، جو کئی طرح کے بحرانوں کو جنم دیں گے۔ ان میں سے شدید ترین بحرانوں کا سامنا معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی کو ہوگا۔کئی تجزیہ کاروں کو شکایت ہے کہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے تعلیمی شعبے میں طویل عرصے سے پیدا ہو چکی اس ہنگامی حالت کے تدارک کے لیے کافی اور دیرپا عملی اقدامات نہیں کیے۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی ایک خاتون رہنما اور قومی اسمبلی کی سابقہ رکن مہناز عزیز نے کہا، مسئلے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں دھماکہ خیز اضافہ ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے نئے اسکول قائم نہیں کیے جا رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سکول نہ جانے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں، جن کے والدین تعلیم دلوانے کے بجائے مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سے مزدوری کروانا چاہتے ہیں۔مہناز عزیز نے اپنے آبائی علاقے کی مثال دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پنجاب کے ضلع نارووال میں میرے علاقے شکر گڑھ میں بچیوں کی تعلیم کا تناسب 80 فیصد ہے۔ یہ ایسے ممکن ہوا کہ ہم نے وہاں عوام کے ساتھ مل کر اس بات کو اولین ترجیح بنایا کہ بچے ہر صورت میں سکول جائیں تو تعلیمی شعبے میں جو کچھ شکر گڑھ میں ممکن ہو سکتا ہے، وہ پورے پاکستان میں بھی تو ہو سکتا ہے۔سماجی علوم کے ماہر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں کا سامنا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک خاص کر امریکہ یا پھر یورپی یونین کے کسی رکن ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں آج کے پاکستانی معاشرے میں اگر ریاست نے اپنے فرائض ادا نہ کیے اور پرائمری اور ہائی اسکولوں میں تعلیم کی عمر کے کروڑوں بچوں کو ناخواندہ رہنے دیا، تو دس پندرہ سال بعد ملک میں جسمانی مشقت کرنے والے مزدوروں میں کروڑوں نئے مزدور شامل ہو جائیں گے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل فرمان اللہ نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، آج اکیسویں صدی میں جب کروڑوں پاکستانی بچے اسکول نہیں جائیں گے، تو دس پندرہ سال بعد وہی بچے ان پڑھ نوجوان ہوں گے۔ یہ انتہائی بری صورت حال ہوگی۔پاکستانی دارالحکومت میں گزشتہ بیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک نفیسہ محمود کے مطابق ایک اور پہلو بڑا خطرناک ہے، بچے سکول نہیں جائیں گے، تو مدرسے جائیں گے، جہاں انہیں کھانا اور رہائش تو مفت مل جاتے ہیں مگر ان کا جسمانی اور جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔مذہبی جماعتیں ایسے بچوں سے بھرے ہوئے مدرسوں کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی ہیں اور ملک میں خیرات اور چندے کی سوچ کو تقویت ملتی ہے۔معروف ماہر تعلیم اور سائنسدان ڈاکٹر اے ایچ نیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں معیاری تعلیم اب حکومت اور عوام دونوں میں سے کسی کی بھی ترجیح نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”عام والدین چاہتے ہیں کہ بچہ دس سال اسکول گیا ہو، تو اس کے ہاتھ میں کوئی ہنر بھی ہو جس سے وہ پیسے کما سکے۔ ڈاکٹر نیر کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ بچوں کی اچھی تعلیم کے ریاستی اور عوامی مستقبل سے لازمی تعلق کو سمجھے اور اس شعبے میں بھرپور نئی سرمایہ کاری کرے۔ والدین بھی ہر حال میں بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ اس کے لیے پاکستانی حکومت اور عوام دونوں کو نئی نسل کی تعلیم سے متعلق اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

Back to top button