عمران خان توبہ کا مشورہ دینے والے دوست پر برہم

مشکلات میں گھرے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان اپنے ایک قریبی دوست کی جانب سے توبہ کا مشورہ دیے جانے پر بھڑک اٹھے اور ان پر برہم ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ زمان پارک لاہور میں ان کے قریبی دوست نے فرینک گپ شپ کے دوران عمران سے کہا کہ پے درپے مقدمات، گرفتاری کے امکان، سر پر لٹکتی نااہلی کی تلوارکا، قاتلانہ حملہ، اور ناکام لانگ مارچ کے بعد ان کی آڈیوز کے افشا ہونے سے لگتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہیں اور شاید اسی وجہ سے ان پر برا وقت آیا ہوا ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ وہ توبہ کریں تا کہ اللہ تعالٰی کی پکڑ سے نکل سکیں۔

ذرائع کے بقول عمران خان کا یہ دیرینہ دوست لگی لپٹی رکھے بغیر مشورہ دینے کے حوالے سے جانا جاتا ہے کیونکہ وہ عمران خان کا پرانا ساتھی ہے۔ ماضی میں عمران اپنے اس دوست کی تلخ تنقید بھی برداشت کرتے رہے ہیں، تاہم اس بار معاملہ مختلف نکلا۔ ذرائع نے بتایا کہ دیرینہ دوست کی جانب سے توبہ کے مشورے پر خلاف توقع عمران خان بھڑک اٹھے اور غصے میں ڈرائنگ روم سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بعد ازاں اسد عمر نے عمران کے دوست اور پارٹی کے سینئر ساتھی کو موجودہ حالات میں ایسے مشورے دینے سے گریز کرنے کی تلقین کی۔

پارٹی کے ایک سینئر سابق عہدیدار کے بقول عمران خان اس وقت جس صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں اس کا ان کے مزاج پر خاصا اثر پڑا ہے اور وہ کافی چڑچڑے ہو گئے ہیں اور سچ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ انکے بقول وہ ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جہاں ان کو اپنا ہر عمل درست دکھائی دیتا ہے اور اگر کوئی ان کی اصلاح کرنا چاہے تو عمران کا لہجہ بہت تلخ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے پارٹی اجلاسوں میں چند لوگوں کے علاوہ کسی کو ان سے اختلاف رائے کی جرات نہیں۔

پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ اوپر تلے آنے والی تین آڈیو لیکس پر پارٹی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں  نے عمران کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ دو خواتین کے ساتھ گندی گفتگو پر مبنی ان آڈیو لیکس کو لے کر نام نہاد اخلاقی اقدار کے زعم میں مبتلا بقراطی تجزیہ نگاروں کا اصرار ہے کہ ’’کسی کی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دینا چاہیے‘‘ حالانکہ چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب جو تازہ آڈیوز لیک ہوئی ہیں ان کا تعلق ذاتی زندگی سے نہیں بلکہ ذاتی کردار سے ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ذاتی زندگی اور کردار میں نمایاں فرق ہے۔ ذاتی زندگی سے مراد شادی، طلاق اور اولاد سمیت دیگر خانگی معاملات ہیں۔ یقیناً ان میں کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن ایک پبلک فگر کا ذاتی کردار بالکل ایک الگ چیز ہے خصوصاً جب وہ سابق وزیر اعظم بھی رہا ہو۔ ناقدین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں عوامی نمائندوں کے ذاتی کردار پر نظر رکھی جاتی ہے اور وہ عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ رول ماڈل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی اخلاقی لغزش پر امریکی صدر بل کلنٹن کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حال ہی میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی اسی لیے گرفت میں آئے میں آئے اور اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ بات بات پر مغرب کی مثالیں دینے والے عمران خان اس سے خود کیسے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں؟

Back to top button