وزیرستان میں دہشت گرد طالبان کی واپسی شروع

قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے اور ریاستی رٹ بحال کرنے کے تمام تر حکومتی دعوؤں کے برعکس وزیرستان میں طالبان کی واپسی ہو چکی ہے جس سے خوف کی فضا بدستور موجود ہیں اور نہ صرف عام شہری پریشان ہیں بلکہ طلبا بھی بُری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
یاد رہے کہ ریاست پاکستان کی ضرب عضب کی دوسالہ جنگ کے بعد سکیورٹی فورسز نے کہا تھا کہ طالبان دہشتگردوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا ہے اور دھشت گردی کے خلاف جنگ مین پاکستانی افواج کی کامیابی نئی نسل کے لئے مشعل راہ رہے گی اور ملک دُشمنوں کو کبھی واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ لیکن 2020 کے پہلے تین مہینوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے آسانی سے کہا جا سکتا یے کہ آنے والے نو ماہ میں بھی حالات بہتر ہعنے کی اُمید نظر نہیں ہے۔
اگرچہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت روزانہ کے حساب سے قبائلی اضلاع کے لیے کسی نہ کسی طرح اچھی خبروں کی اُمیدیں دلاتی رہتی ہے مگر وہاں کے حالات کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت کی اچھی خبریں صرف بیانات تک محدود ہیں اور عملی طور پر کچھ خاص نہیں۔ شمالی وزیرستان میں یکم اپریل کو سابق ممبر قومی اسمبلی محمد نذیر کی گاڑی پر طالبان نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ بال بال بچ گئے۔ گاڑی کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ محمد نذیر پر حملے کے دوسرے دن میرعلی کے علاقے میں پولیس کی گاڑی پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس محرر رحیم نواز ہلاک ہو گیا۔
اس طرح جنوری کے مہینے میں تحصیل دتہ خیل میں طالبان کی فائرنگ سے دو قبائلی ملک ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد سے کئی دنوں تک شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے مگر حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ایک واقعے کی تحقیقات میں بھی تاحال کسی قسم کی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں پولیس نے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو خبردار کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سجنا گروپ نے ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے طالبان نے پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے والد سمیت پانچ آفراد کو 2005 میں قتل کردیا تھا۔ اب تازہ طالبان حملوں کے بعد علی وزیر نے کہا ہے کہ اگر ان کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔
دوسری طرف کروناوائرس کے باعث پاکستان میں تمام تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے قبائلی اضلاع کے تمام طلبا اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اور تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچنے کے لیے تمام تعلیمی اداروں نے طلبا کو آن لائن کلاسز کے ذریعے سیشن جاری رکھنےکا نوٹفیکشن جاری کر دیا ہے۔ لیکن وزیرستان میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وانا میں طلبا نے تین دن پیشتر انٹرنیٹ سروسز کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے جو تاحال جاری ہیں۔ طلبا کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے لیے فوری طور پر انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے یا خیبر پختونخوا میڈیکل فیکلٹی انٹرنیٹ کی بحالی تک کلاسوں کو موخر کردے۔ اسسٹنٹ کمشنر امیر نواز کے مطابق وانا میں دو کمپنیوں کی سم کام کر رہی ہیں لیکن تھری جی اور فور جی کو بحال کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ تاہم انہوں نے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کر دی ہے۔ تاہم امیر نواز کے مطابق طالبان کی علاقے میں واپسی کے بعد بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انٹرنیٹ کو بند رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب علی وزیر کا کہنا یے کہ سکیورٹی اداروں کی طرف سے ان کو شدت پسند تنظیم کی دھمکیوں کے پیغام دینا تو اس بات کا اعتراف کہ شدت پسند علاقے میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز اب بھی علاقے میں لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ جب چاہے ان کو استعمال کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وانا میں گزشتہ تین دنوں سے پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے احتجاج کرنے پرمجبور ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے یونیورسٹیاں بند ہیں اور تعلیمی سلسلہ آن لائن جاری ہے۔ علی وزیر کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ صرف علاقے کے لوگوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا ہے تاکہ لوگ دُنیا کی معلومات سے بے خبر رہیں اور شعور و آگاہی نہ ہوں۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات اور شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے بعد بھی شہری پُرامن زندگی گزارنے اور امن و امان کی فضا نہ دیکھ سکے جس کی وجہ سے اب بھی یہاں کی پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی اپنے علاقوں سے دور دوسرے شہروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button