حادثے کے بعد طیارے کے پرزے کیسے باتیں کرتے ہیں؟

پاکستان میں وفاقی وزیرِ ہوا بازی نے جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ کراچی میں رہائشی علاقے میں گر کرحادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ 22 جون کو پارلیمنٹ پیش کر کے حقائق سے عوام کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیقات بالکل منصفانہ اور آزادانہ انداز میں کی جائیں گی اور اس میں ’نہ تو کسی کو بچایا جائے گا اور نہ ہی کسی کو پھنسایا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ جمعے کو کراچی میں پی آئی اے کا ایک ایئر بس اے 320 طیارہ گر کر حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔حادثے کے تقریباً ایک ہفتے بعد پی آئی اے نے اعلان کیا ہے کہ اس کا کاک پٹ وائس ریکارڈ (سی وی آر) مل گیا ہے۔ اس سے پہلے حکام کہہ چکے ہیں کہ طیارے کا فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر (ایف ڈی آر) تلاش کر لیا گیا ہے۔
مگر بہت سے لوگوں کا سوال ہے کہ یہ آلات کیا ہوتے ہیں اور کسی فضائی حادثے کی تحقیقات کیسے کی جاتی ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ بلیک باکس کوئی ایک ڈبہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ کالے رنگ کا ہے۔ عام اصطلاح میں جس چیز کو بلیک باکس کہا جاتا ہے، یہ دو آلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈ۔
کمرشل پائلٹ اور ایوی ایشن سائیکالوجسٹ نوشاد انجم بتاتے ہیں کہ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جس میں طیارے کے بارے میں پرواز کے بارے میں مختلف معلومات محفوظ ہو رہی ہوتی ہیں۔ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ میں موجود مواد جب آپ اس کو واپس چلاتے ہیں تو آپ کو پرواز کے حوالے سے تمام معلومات جیسے کہ پرواز کی اونچائی کیا تھی، طیارے کی رفتار کیا تھی، لینڈنگ گیئر کھلا تھا یا نہیں، فلیپ نیچے تھے یا نہیں۔ کاک پٹ کے اندر جو جو کام طیارے کا عملہ کر رہا ہوتا ہے، اس کی تمام تر تفصیلات وقت کے ساتھ اس میں آ رہی ہوتی ہیں۔ آپ یہ سمجھیں یہ ایک خاموش فلم ہوتی ہے جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ہو رہا تھا۔
ہوا بازی میں ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز کے انجن اسٹارٹ ہونے سے لے کر جہاز کے منزل پر پہنچ کر پارک ہونے تک تمام ڈیٹا نہ صرف محفوظ کیا جاتا ہے بلکہ بیشتر اوقات اس کو فضائی پرواز کے دوران براہ راست کسی موبائل سگنل کے ذریعے کنٹرول سینٹر تک بھیجا بھی جا رہا ہوتا ہے۔ نوشاد انجم کہتے ہیں کہ تفتیش کاروں کےلیے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ کیا ہوا اور کب ہوا۔
دوسری جانب ’کاک پٹ وائس ریکارڈ آپ کو بتاتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ کیوں اور کیسے ہوا۔‘ کاک پٹ وائس ریکارڈ میں وہ تمام باتیں ریکارڈ کی جا رہی ہوتیں ہیں جو کہ کاک پٹ میں کی جا رہی ہوتیں ہیں۔ ان میں پائلٹ کی زمینی عملے سے تمام تر گفتگو اور اپنے شریک پائلٹ یا عملے سے ساری بات چیت ریکارڈ ہوتی ہے۔ ‘جو بات پائلٹ نے کی ہے اور جو بات اس کے کانوں میں گئی ہے وہ سی وی آر میں ریکارڈ ہوگی۔’ نوشاد انجم مثال دیتے ہیں کہ اگر کوئی پائلٹ اپنے شریک پائلٹ سے کہے کہ ‘یار بہت وقت زیادہ ہوگیا ہے، مجھے آج جلدی گھر پہنچنا تھا، ذرا جلدی چلیں گے، اونچائی پر جائیں گے!’ تو اس سے آپ کو پائلٹ اور عملے کی اس وقت کی سوچ کا پتا چلاتا ہے۔ نوشاد انجم بتاتے ہیں کہ کسی بھی فضائی حادثے کی تفتیش کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ’پہلا ہے کریش میجنمنٹ اور دوسرا ہے کریش انویسٹی گیشن۔
کریش میجنمنٹ میں پہلی چیز ہوتی ہے گو ٹیم۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ اتنا زیادہ ہوتا نہیں ہے۔ گو ٹیم آگ بجھانے والے عملے کی طرح ہر وقت تیار ہوتی ہے۔ گو ٹیم کا کام یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی پتا چلا ہے کہ کوئی کریش ہوا ہے تو فوراً جاکر شواہد اور جائے وقوع کو محفوظ کرتے ہیں۔ مثلاً طیارے کے پرزے وغیرہ۔
اس کے بعد ان تمام پرزوں کو جمع کر کے ایک کھلی جگہ پر لے جایا جاتا ہے اور طیارے کو جیسے دوبارہ شکل دی جاتی ہے۔ آپ کو ایسا لگے گا کہ جہاز کھلا پڑا ہوا ہے۔ طیارے کی ناک کو ناک کی جگہ پر رکھا جاتا اور ٹیل کو ٹیل کی جگہ رکھا جاتا ہے۔ پھر جو گمشدہ حصے ہوتے ہیں انہیں جوڑا جاتا ہے۔ پھر اپ کو بتایا جاتا ہے کہ کون سا پرزہ یا آلہ اس وقت کارآمد تھا۔ کراچی میں گرنے والے طیارے کے بارے میں نوشاد انجم کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر میں نے ٹی وی دیکھا ہے کہ انجن بالکل ثابت ہے۔ اگر آپ انجن کے فین بلیڈ دیکھیں تو وہ اپنی جگہ پر ہیں۔ اس کا مطلب ہے جب انجن گرا ہے اور وقت اس کے فین بلیڈ گھوم نہیں رہے تھے۔ اگر وہ چل رہے ہوتے تو انہیں بہت زیادہ نقصان ہوتا، وہ مڑ چکے ہوتے۔ اس طرح طیارے کے پرزے آپ سے بات کرنے لگتے ہیں۔ انویسٹی گیشن کے مرحلے کے بارے میں نوشاد انجم کہتے ہیں کہ اس میں طیارے کی انجنیئرنگ بکس چیک کی جاتی ہیں، تمام متعلقہ لوگوں کے انٹرویو کیے جاتے ہیں۔ عملے کے صحت کے ریکارڈ، ان کے فلائٹ ڈیوٹی ٹائم کی حدود سب کچھ جانچا جاتا ہے۔
ہم طیارے کی جانچ کرتے ہیں، ہم متعلقہ انسانوں کو جانچتے ہیں، ان تمام لوگوں سے بات کرتے ہیں جن کے طیارے کے دستاویزات پر دستخط ہوتے ہیں۔ اکثر حادثوں میں ہوتا ہے کہ جو نظر آ رہا ہوتا ہے اس لیے ہم ایک مکمل چیک لسٹ فالو کرتے ہیں ورنہ حقیقت کہیں رہ جاتی ہے۔