دریائے سندھ میں پانی کی مسلسل کمی، غذائی قلت کا خطرہ
دریائے سندھ صوبے میں بہنے والا واحد دریا ہے جس پر اس صوبے کی زراعت کا بڑا انحصار ہے۔ لیکن رواں برس دریا میں پانی کی کمی شدت اختیار کر چکی ہے۔اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج پر پانی کی کمی 55 فی صد ریکارڈ کی جا چکی ہے۔انڈس ڈیلٹا کا علاقہ پاکستان میں چاول کی کاشت کے لیے موزوں چار زونز میں سے ایک ہے۔ البتہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث یہاں پانی کی کمی سے فصل کی پیداوار میں کمی دیکھی جا رہی ہے اور وقت پر پانی کی عدم دستیابی اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔دریا میں پانی کی کمی سے صرف زراعت ہی متاثر نہیں ہو رہی۔ بلکہ ان علاقوں کا سارا ماحولیاتی نظام تباہی کا شکار ہو رہا ہے۔ اس میں سب سے اہم ڈیلٹائی علاقوں کا سمندر برد ہو جانا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال تقریباً دو دہائیوں بعد در پیش ہے جب دریا پر اس آخری بیراج پر پانی کی کمی اس قدر زیادہ ہو گئی ہو۔کوٹری بیراج کے بعد سے دریا سمندر میں گرنے سے قبل مزید 110 میل کا سفر طے کرتا ہے۔ اس وقت دریا کے اس بڑے حصے میں پانی کے بجائے محض ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی محض 200 کیوسکس کے قریب چھوڑا جا رہا ہے۔ جب کہ وہاں پانچ ہزار کیوسک متواتر پانی چھوڑے جانا ضروری ہے۔ 1991 کے صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ہر سال کوٹری بیراج سے ایک کروڑ ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑے جانا ضروری قرار دیا گیا تھا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو رہا۔
چیف انجینئر کوٹری بیراج حاجی خان جمالی کے مطابق صوبوں اور وفاق کے درمیان پانی کے معاہدے کے مطابق 27 ہزار کیوسک پانی کوٹری بیراج کو ملنا چاہیے لیکن یہ محض 11 ہزار کیوسک مل پا رہا ہے۔حاجی خان جمالی کا کہنا تھا کہ 1976 سے 2020 تک 20 برس ایسے گزرے ہیں جس میں کوٹری بیراج سے پانی کا اخراج مقررہ حد کے مطابق نہیں ہو سکا خاص طور پر 1999، 2000 اور 2001 میں بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی تھی۔
دریا کے کنارے آباد علاقوں کے لوگ بھی پانی کی بدترین کمی کا شکار ہیں اور ان علاقوں کے لوگ اپنے استعمال اور جانوروں کے لیے پانی کی عدم دستیابی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔اس تکلیف میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہو جاتا ہے کہ ان علاقوں میں زیرِ زمین پانی بھی قدرتی طور پر کھارا یعنی نمکین ہے اور یہاں اس قدر فلٹر پلانٹس موجود نہیں جس سے وہ صاف پانی کا حصول کم از کم اپنے لیے ممکن بنا سکیں جس سے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ لائیو اسٹاک کا نقصان ہو رہا ہے۔
دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے کراچی کو بھی کوٹری ہی کے مقام پر کلری بیگھار کینال کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دریائے سندھ سے مزید 1200 کیوسک پانی کی ضرورت ہے۔ لیکن دریا میں پانی کی کمی سے شہر کو پانی کی مسلسل فراہمی کے بارے میں بھی ماہرین میں خدشات اور تشویش پائی جاتی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ پر دیا میر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، گاج ڈیم اور مختلف رینی کینال سمیت دیگر نہروں کی تکمیلکے بعد پانی وہاں جانا شروع ہوگا۔ تو کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے مشکل ہی سے سالانہ 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا اخراج ممکن ہو سکے گا جس سے جو تباہی ہو گی وہ اس سے بھی بڑی ہو گی اور ایسے میں قبول محمد کھٹیان جیسے کاشت کار سوچ رہے ہیں کہ ان کے علاقے کا مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا اور پانی کی کمی سے جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلی سے کیا بالآخر انہیں یا ان کی نسلوں کو بھی اس زمین کو خیر باد کہنا ہو گا جسے وہ اپنی ماں کہتے ہیں؟ مگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2000 سے 2020 کے دوران سالانہ اوسطاً 12 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گیا ہے۔ بعض برسوں میں سیلاب کی صورت میں اس میں اضافہ بھی ہوا۔سندھ کی حکومت شکایت کر رہی ہے کہ اگر کسی سال پانی کی کمی قدرتی طور پر واقع ہوئی ہے تو اس کا اثر تمام صوبوں پر برابری کی بنیاد پر پڑنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک علاقے یا صوبے کو پانی کے زیادہ بحران کا سامنا ہو اور دوسرے کو کم ہو۔ یہ زیادتی کے مترادف ہے اور اس سے لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔دریائی جنگلات اور مینگرووز کو تازہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔
سندھ میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ملک میں پانی کی تقسیم کار کے ذمہ دار ادارے ‘انڈس ریور سسٹم اتھارٹی’ کے حکام کی جانب سے کوٹری سے ڈاؤن اسٹریم پانی کو سمندر میں پانی جانے کو "ضیاع” قرار دینے پر شدید اعتراض کرتی آئی ہے۔
پانی نہ ہونے کی وجہ سے کوٹری بیراج کے اردگرد چاول کی کاشت کے علاقے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اگرچہ دریا کے بہاؤ میں گزشتہ دنوں کی نسبت کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ البتہ مقامی کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی سے ایسا لگتا ہے کہ 15 جون تک چاول کی کاشت شروع نہیں کی جا سکے گی۔
ادھر چاول کی کاشت کے ان علاقوں یعنی بدین اور ٹھٹھہ کی رائس بیلٹ میں زمینیں تیار تو ہیں لیکن ان پر چاول کی بوائی نہیں ہو سکی ہے۔کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ وقت پر پانی نہ ملنے کی وجہ سے چاول کی کاشت اچھی نہ ہونے کے خدشات ہیں جس سے پاکستان چاول کی پیداوار میں کمی کا شکار ہو سکتا ہے جو ملک کی تیسری بڑی فصل ہے اور دوسری جانب چاول کی برآمدات میں بھی فرق پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اعلیٰ درجے کے باسمتی چاول کا برآمد کنندہ بھی ہے اور اس سے پاکستان نے مالی سال 20-2019 میں دو ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ کمایا تھا۔
دریائی پانی جب سمندر میں نہیں پہنچتا تو سمندری پانی اوپر کی جانب بڑھ رہا ہے اور اب تک ٹھٹھہ اور بدین کی ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں سمندر کے اندر جا چکی ہیں۔سن 1877 میں ہر سال دریا سے قدرتی طور پر سمندر میں جانے والی مٹی سے اوسطاً چار یارڈ زمین مزید بنتی تھی لیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تقریباً ایک لاکھ 75 ہزار ایکڑ قابلِ کاشت زمین سمندر نے نگل لی ہے۔ایسے میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ ان علاقوں میں دریا میں پائی جانے والی نایاب مچھلیوں کی نسلیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
ماہرینِ ماحولیات کے مطابق دریا کی روانی متاثر ہونے سے قدرتی تالاب اور چھوٹی جھیلیں خشک ہو رہی ہیں اور کچھ تو ختم ہی ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے سائبیریا سے سردی کے موسم میں سندھ کا رُخ کرنے والے پرندوں کی تعداد میں بھی کمی ہو رہی ہے اور ان اضلاع میں تازہ مچھلی کی پیداوار کا عمل بھی بے حد متاثر ہوا ہے ۔
خیال رہے کہ اس سے قبل انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے پنجاب اور سندھ کے لیے 32 فیصد پانی کی کمی کی فراہمی سے متعلق فیصلے کے بعد گڈو بیراج کے چیف انجینئر نے کاشتکاروں کو تجویز دی ہے کہ وہ مئی اور جون میں دھان کی بوائی نہ کریں کیونکہ بیراج کو ’60 برس میں پانی کی بدترین قلت‘ کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاشت کار جولائی میں نرسریوں کی تیاری کرسکتے ہیں جب تک پانی کے بہاؤ میں بہتری کی توقع ہے۔
سندھ کے تینوں بیراجوں میں پانی کی قلت جاری ہے تاہم کوٹری بیراج میں 50.44 کی قلت کے بعد صورتحال زیادہ سنگین ہے۔سندھ کے تین بیراجوں میں 36.94 فیصد پانی کی قلت کا سامنا کررہے ہیں جو کپاس کی فصل کے لیے مشکلات کا باعث ہے اور ابتدائی خریف کے لیے پانی دستیاب ہوسکتا ہے۔ارسا کے سندھ کے رکن زاہد جونیجو نے کہا ہے کہ سب کو اُمید ہے کہ بالائی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر پانی کی صورتحال میں بہتری آئے گی جس سے پانی کے بہاؤ میں بہتری واقع ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ لیکن فی الحال جہاں کپاس کی کاشت ہوتی ہے یا دھان کی نرسری تیار کی جاتی ہیں پانی کی قلت کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوسکتی ہیں۔
زاہد جونیجو کے مطابق جہاں تک پانی کی تقسیم کا تعلق ہے تو سندھ نے ہمیشہ ایک نکتے کو اہمیت دی ہے کہ ’ہمیں پانی کی تقسیم کے معاہدے 1991 کے مطابق پانی فراہم کیا جائے، ہم تین درجے کا فارمولا قبول نہیں کرتے جو تنازع کی جڑ ہے‘۔انہوں نے کہا کہ صورتحال اتنی خراب ہے کہ لوگ پینے کے پانی کے لیے رونے لگے ہیں آب پاشی کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر مقام پر پانی کے بہاؤ کی جانچ کرتے ہیں، سندھ اور پنجاب کی رضامندی سے اب کمیٹی کی تشکیل ممکن ہے جسے پانی کے اخراج پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔
زاہد جونیجو نے ارسا اور پنجاب کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا جس کے تحت کوٹری کے بہاو کو ’پانی کی بربادی‘ قرار دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس قابل اجازت نقصان 35 فیصد تھا لیکن اس میں 30 فیصد پر نظرثانی کی گئی جو ایک مرتبہ پھر سندھ کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا مؤقف ہے کہ تونسہ اور گڈو کے مابین ٹرانزٹ نقصانات غیر معمولی حد سے زیادہ ہیں۔
زاہد جونیجو نے بتایا کہ دریائے سندھ گڈو بیراج تک پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں 100 میل کا فاصلہ 300 میل کا فاصلہ بن جاتا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے لیے جاری پانی کے بہاؤ میں سے پنجاب کے ندی نالے میں تقریباً 50 ہزار ایکٹر اراضی سیراب ہو رہی ہے۔