سندھ ہائی کورٹ :26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کےلیے منظور

سندھ ہائی کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کےلیے منظور کرتےہوئے اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کےخلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیےکہ آئین عدلیہ کا نہیں پارلیمنٹ کا معاملہ ہے،آپ نے آئین کے آرٹیکل 239 کا جائزہ لیاہے؟

چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی نے مزید کہاکہ ہمارا دائرہ اختیار کیاہے اس میں؟ ہمارےپاس سپریم کورٹ کے اختیارات نہیں ہیں،جو اختیارات ہائی کورٹ کے پاس ہےوہی کر سکتے ہیں، 2 فورمز نےکیسے عدلیہ کی آزادی متاثر کی ہے؟

عدالت عالیہ  کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو عوام نے منتخب کیاہے۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کےخلاف درخواست سماعت کےلیے منظور کرتےہوئے اٹارنی جنرل پاکستان،ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

یاد رہےکہ 22 اکتوبر کو 26 ویں آئینی ترمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کر دیا گیاتھا۔

عدالت عالیہ میں درخواست الٰہی بخش ایڈووکیٹ کی جانب سےدائر کی گئی تھی، جس میں مؤقف اپنایا گیاتھا کہ 26ویں آئینی ترمیم پاس کرکے عدلیہ کی آزادی اور رول آف لا کی خلاف ورزی کی گئی۔

انہوں نےدرخواست میں کہا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 175۔اے میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی میں انتظامیہ کی مداخلت بڑھادی گئی ہے اور اس قسم کی ترمیم عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کو انتظامیہ کے ما تحت کرنا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ آئینی ترمیم کی سیکشن 8، 11 اور 14 کالعدم قراردی جائیں

درخواست میں سکریٹری کیبنٹ ڈویژن،سیکریٹری لا اینڈ جسٹس اینڈ پارلیمانی افیئرز و دیگر کو فریق بنایاگیا ہے۔

گزشتہ ماہ سےحکمران اتحاد آئینی ترامیم کےلیے حمایت حاصل کرنے کےلیے پارلیمان میں سیاسی جماعتوں سے بھرپور لابنگ کرنے میں مصروف تھاجہاں ان ترامیم میں بنیادی توجہ عدلیہ پر مرکوز تھی۔

اس دوران کئی دن تک جاری مشاورت میں اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانےکا سلسلہ جاری رہاتھا اور حکومت کوشش کےباوجود بھی اس ترامیم کو ایوان میں سے منظور کرانےمیں کامیاب نہ ہوسکی۔

تنازع کی ایک بڑی وجہ ایک مجوزہ وفاقی آئینی عدالت تھی، جس کی پی ٹی آئی نے مخالفت کی اور مولانا فضل الرحمٰن نےاس کے بجائے آئینی بینچ کے قیام کامطالبہ کیاجسے بعدازاں مسودےکا حصہ بنالیا گیا تھا۔

بالآخر کابینہ سے 26ویں آئینی ترمیم کا پیکج منظور ہونے کےبعد اسے 20 اکتوبر کو سینیٹ اور پھر 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گی تھا۔

مفت کے وکیلوں نے عمران خان کی پی ٹی آئی کا کباڑا کیسے کیا؟

وزیر اعظم نے ترامیم کو منظوری کےلیے صدر مملکت کے پاس ارسال کیاتھا، جنہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کے گزیٹ پر دستخط کرکے اسے قانون کی شکل دے دی تھی۔

ان ترامیم میں سب سے اہم بات چیف جسٹس کے تقرر کے طریقہ کار میں تبدیلی ہے،جہاں پہلے سپریم کورٹ کےسب سے سینئر جج چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے تھے تاہم اب اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

نئےطریقہ کار کے تحت چیف جسٹس کی تقرری سپریم کورٹ کےتین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل 12 رکنی کمیٹی اس کا حتمی فیصلہ کر کے نام وزیر اعظم کو بھیجے گی۔

بعد ازاں، 22 اکتوبر کو چیف جسٹس کے تقرر کےلیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا تھا، جنہوں نے 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

اس کےحوالے سے ترامیم میں آئینی بینچز کے قیام کےساتھ ساتھ ججوں کی کارکردگی اور فٹنس کو جانچنے کےحوالے سے شقیں بھی شامل کی گئی ہیں۔

Back to top button