صحافیوں کے تحفظ کے بل میں کونسی بدنیتی چھپی ہے؟

پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کی غرض سے متعارف کروائے گئے حالیہ قانون میں کسی صحافی کو خبر غلط دینے پر ذمہ دار ٹھہرانے کی متنازع شق کو صحافتی اور قانونی حلقوں کی جانب سے بدنیتی پر مبنی قانون قرار دیا جا رہا ہے۔ صحافیوں کو لگتا ہے کہ موجودہ نیا قانون صحافیوں کے فائدے کے لیے کم اور انہیں خوفزدہ کرنے یا خاموش کرانے کا ذریعہ بنے گا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں نافذ ہونے والے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے سیکشن 6 کے ذریعے کسی خبر کے درست ہونے یا نہ ہونے کی تمام تر ذمے داری اسی صحافی پر عائد کر دی گئی جو اسے فراہم کرے گا اور اس پاداش میں صحافی کو بدنیت ثابت کرکے سزا دی جاسکتی ہے۔ صدر عارف علوی نے صحافیوں کے تحفظ کے بل پر دستخط کر دیئے ہیں جس کے بعد اب یہ بل قانون بن گیا ہے۔
تاہم صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون میں ایک شق ایسی بھی ہے جس سے صحافیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس بل کی جس شق کی سب سے زیادہ تعریف کی جارہی ہے وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن کے قیام سے متعلق ہے۔ اس بارے میں سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ کمیشن صحافیوں کے خلاف ہونے والی کسی بھی قسم کی ذیادتی پر فوری کارروائی کر سکے گا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ کمیشن میں ورکنگ جرنلسٹ کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی کمیٹی میں بل کا جو ڈرافٹ پیش کیا گیا تھا اس میں سنسر شپ سے متعلق کوئی شق موجود نہیں تھی اور اس پر صحافیوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ حامد میر کے بقول بل کے سکیشن چھ کو صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی نیک نیتی کے فرائض کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی صحافی یا میڈیا ورکر ایسے مواد کو پھیلانے کا ذریعہ نہیں بنے گا جس کی تصدیق نہ ہو۔ حامد میر کے خیال میں بل کے سیکشن چھ کے ذریعے کسی خبر کے درست ہونے یا نہ ہونے کی تمام تر ذمے داری اسی صحافی پر عائد کر دی گئی اور غلط خبر کی پاداش میں صحافی کو بدنیت ثابت کیا جاسکتا ہے۔ خبر دینے کے لیے زمینی حقائق مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور اس سکیشن کے ذریعے صحافیوں کو دباؤ میں بھی لایا جاسکتا ہے۔
حامد میر نے کہا کہ جب یہ بل پراسس ہورہا تھا تو تب قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں اس کا ڈرافٹ پیش کیا گیا لیکن اس میں یہ شق موجود نہیں تھی۔ اس شق کو بعد میں ڈرافٹ میں شامل کیا گیا اور صحافیوں کو اس سے بالکل لاعلم رکھا گیا۔ واضح رہے کہ پارلیمان سے پاس ہونے والے قانون کے مطابق حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی یا قومی سلامتی سے متعلق موجودہ یا مستقبل کا کوئی بھی قانون صحافیوں کے کام میں دشواری پیدا کرنے کے لیے اور ان کو خاموش کرانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ صحافیوں کے تحفظ کے قانون کے تحت ایک کمیشن بھی قائم کیا جائے گا جسے سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ہر صوبے سے ایک یعنی کُل چار نمائندے شامل ہوں گے۔ ایک نمائندہ قومی جب کہ ایک نمائندہ ہر صوبائی پریس کلب سے شامل ہو گا۔ وزارتِ اطلاعات اور انسانی حقوق کا بھی ایک ایک نمائندہ اس کمیشن کا حصہ ہو گا۔ کمیشن کا چیئرمین سابق جج یا قانون اور انسانی حقوق میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والا شخص ہو گا۔
نئے قانون کے مطابق اگر کسی صحافی کو ہراساں کیے جانے یا تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس واقعے کی تفصیلات 14 روز کے اندر کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کمیشن 14 روز میں اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔ کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔ اس قانون میں میڈیا مالکان پر یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ ہر صحافی کو نوکری پر رکھنے کے ایک سال کے اندر انہیں ذاتی حفاظت سے متعلق تربیت دی جائے۔ اس قانون کے تحت میڈیا مالکان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اسٹاف کے تمام ممبران کی لائف اور ہیلتھ انشورنس کو یقینی بنائیں۔ قانون میں کہا گیا ہے کہ حکومت یقین دہانی کرے گی کہ صحافیوں کو جبری یا غیر رضاکارانہ غائب کرنے، اغوا کرنے، اٹھائے جانے یا دیگر زبردستی کرنے کے طریقہ کار کے خلاف صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو تحفظ دینے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ ہر صحافی اور میڈیا ورکر کو حق رازداری حاصل ہوگا جس میں اس کا اس کے گھر، خط و کتابت، خاندان کے تحفظ کا حق شامل ہے۔ کسی صحافی کو اپنے ذرائع افشاں کرنے کے لیے جبر، زور، مجبور یا دھمکی نہیں دی جاسکے گی اور ایسے انکشافات صرف قانون کے تابع ہوں گے۔
لیکن صحافیوں کے تحفظ کے بل کی شق چھ پر صحافی اعتراض کر رہے ہیں۔ اس شق کے مطابق نیک نیتی کی ذمے داری صحافی پر عائد کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی بھی صحافی یا میڈیا ورکر ایسے مواد کو پھیلانے سے منسلک نہیں ہوگا جس کے جھوٹے ہونے کے بارے میں اُسے علم ہو۔ اس بارے میں فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اور سینئر صحافی اقبال خٹک نے کہا کہ بل میں پہلی بار صحافیوں کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ شق نمبر چھ ہے جس کے تحت نیک نیتی کی تعریف نہیں کی گئی۔ اس نیک نیتی کے معاملہ کو کوئی بھی حکومت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی صحافی کو شق نمبر چھ پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد کرکے اسے کمیشن سے رجوع کرنے سمیت مختلف حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ اقبال خٹک نے مثال دی کہ اگر کوئی صحافی پاکستان کے تجارتی خسارے کی خبر دے کہ رواں ماہ 8 ارب ڈالر کی درآمدات اور صرف 2 ارب روپے کی درآمدات ہوئیں تو حکومت اس خبر پر صحافی پر بدنیتی کا الزام لگا کر اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا کر کارروائی کرسکتی ہے۔ درحقیقت صحافی کی اس نیک نیت کو کون جانے گا کہ اس نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے یہ خبر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:میڈیکل کالجز میں داخلے کیلئے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ لازمی قرار
اقبال خٹک نے کہا کہ ماضی میں 2016 میں اس وقت کی حکومت سے ہم نے سائبر کرائم کی قانون سازی میں بہت سے معاملات پر بات کی تھی اور صحافیوں کے تحفظ کا کہا تھا لیکن اس وقت حکومت نے ان تمام منفی باتوں کو اس قانون میں شامل کیا اور سائبر کرائم کے قوانین اس وقت صحافیوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ نیا قانون صحافیوں کے فائدے کے لیے کم اور انہیں خوفزدہ کرنے یا خاموش کرانے کا ذریعہ بنے گا۔