نواز شریف کی عدالت سے نااہلی کی سازش کس نے کی؟

نون لیگی قائدین اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی اور انھیں عمرانڈو ججز کے ذریعے سزادلوا کر پراجیکٹ عمران کی راہ ہموار کی گئی۔ جس کا تحریک انصاف ہمیشہ سے انکار کرتی رہی ہے تاہم اب پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور ماہر قانون حامد خان نے تصدیق کی ہے کہ نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہوچکا تھا، اس معاملہ میں عدلیہ کو صرف استعمال کیا گیا۔ یعنی عدلیہ کو صرف فیصلہ سنانے کیلئے استعمال کیا گیا۔
جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کرلیں گے مگر انہیں بعد میں احساس ہوا کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس تمام معاملے کو رونما ہونے کی ترتیب سے دیکھا جائے تو ان کو حکومت سے فارغ کروانے کا تو پہلے ہی سوچ لیا گیا تھا تاہم جب تک اس پر عمل درآمد کر سکے تب تک پاناما پیپر والے معاملے پر کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔
حامد خان نے بتایا کہ میری کتاب میں 2018ء کی سیاسی انجینئرنگ کا ذکر ہے،نیوز لیکس کے بعد نواز شریف کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوگیا تھا، نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہوچکا تھا، اس معاملہ میں عدلیہ کو صرف استعمال کیا گیا، نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کرلیں گے مگر انہیں بعد میں محسوس ہوا کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں
واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔“پاناما پیپرز” لیکس کے نتیجے میں نواز شریف کے خلاف جاری مقدمے میں عدالت کی 5 رکنی بینچ کی جانب سے یہ تاریخی فیصلہ سنایا گیا تھا۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے جب کہ بینچ میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ شامل تھے۔
20 اپریل کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما پیپرز کے معاملے پر اپنا ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں کی مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز کی مہلت دی گئی تھی.جس کے بعد ’جے آئی ٹی‘ نے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت عظمٰی میں پیش کر دی تھی۔
بعد ازاں پاناما کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ‘جے آئی ٹی’ کی رپورٹ پر پانچ روز تک فریقین کے دلائل اور اعتراضات سننے کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کہ 28 جولائی کو سنایا گیا۔