عمران خان کا سائفر کیس سے بچنا ناممکن کیوں؟

ٹرائل کورٹ میں مسلسل سامبے آنے والی گواہیوں کے بعد عمران خان کا امریکی سائفر سازش کیس سے بچنا ناممکن نظر آتا ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور سابق سفیر اسد مجید نے عمران خان کے سائفر ڈرامے کا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت سائفر کیس میں اپنی گواہی میں سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے عمران خان کابینہ سے کہا تھا کہ سائفر کی رازداری ختم کرنے سے نہ صرف غیر ملکی سفارت کاروں سے تبادلوں کو نقصان ہوگا بلکہ امریکا اور کچھ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے ساتھ کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی پیچیدہ ہو جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے عمران خان حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں اور عوامی سطح پر تلخی سے گریز کریں۔ سہیل محمود کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں دی گئی گواہی کے مطابق، سہیل محمود کا کہنا تھا کہ ’’اس مشورے کا مقصد پاکستان کے ایک اہم ملک کے ساتھ تعلقات کو بچانا اور ایک خفیہ دستاویز کے حوالے سے عوامی اور سیاسی نوعیت کے مباحثے سے گریز کرنا تھا۔‘‘

سہیل محمود کا کہنا تھا کہ 8؍ اپریل کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں انہوں نے اس بات پر ضرورت دیا کہ سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنا ممکن ہے اور نہ ایسا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کیونکہ سائفر کے ساتھ سیکورٹی گائیڈ لائنز جڑی ہیں اور ساتھ ہی قانونی معاملات اور خارجہ پالیسی کے مضمرات بھی ہوں گے۔ انہوں نے کابینہ کو یہ بھی بتایا کہ سائفر کی رازداری ختم کرنے کیلئے ماضی میں کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ ایسا کرنے کیلئے کوئی قانونی شق موجود ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مواد کی رازداری ختم کرنے کے نتیجے میں سائفر کمیونیکیشن سسٹم کو نقصان ہوگا۔ ’’میں نے یہ بھی بتایا کہ اس کے نتیجے میں سفارت خانوں اور وزارت کے کام کرنے کا انداز بھی متاثر ہوگا کیونکہ غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ رازداری کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اعتماد اور بھروسے کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف امریکا اور کچھ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی پیچیدہ کر دیں گے۔‘‘

سابق سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’27؍ مارچ 2022 کو ایک عوامی اجتماع میں سابق وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے ایک خط لہرایا، 28؍ مارچ 2022ء کو مجھے ہمارے ایڈیشنل سیکرٹری امریکا کی طرف سے ایک نوٹ موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ ان سے امریکا کے ناظم الامور نے رابطہ کرکے وزیر اعظم کے عوامی بیان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ نوٹ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجتے ہوئے، میں نے مشورہ دیا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھنا اور عوامی سطح پر تلخی سے گریز کرنا سمجھداری ہوگی۔ اس مشورے کا مقصد اہم ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بچانا اور خفیہ رابطہ کاری پر عوامی اور سیاسی بحث سے گریز کرنا تھا۔

سائفر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کی نقل سیکریٹری ٹوُ پی ایم  اعظم خان کو 8؍ مارچ 2022ء کو بھیجی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب 29؍ ستمبر 2022ء کو وہ ریٹائر ہوئے تو اعظم خان کو فراہم کردہ سائفر کی نقل وزارت خارجہ کو واپس نہیں کی گئی۔ 27؍ مارچ 2022ء کو پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے عوامی جلسے میں عمران خان کی جانب سے سائفر لہرائے جانے کے بعد امریکی سفیر نے اس کی کاپی طلب کی تھی تاہم شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کو روک دیا تھا کہ اس کی کاپی امریکی سفیر کے ساتھ شیئر نہ کی جائے۔

دوسری جانب ٹرائل کورٹ میں دیے گئے اپنے بیان میں امریکا میں متعین پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے سائفر واقعہ کو پاک امریکا تعلقات کیلئے ایک دھچکا قرار دیا تھا اور ساتھ ہی اس کے مستقبل میں سفارتی رپورٹنگ کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے، جبکہ سابق ایڈیشنل سیکریٹری فیصل نیاز ترمذی نے یہ واقعہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ سائفر دستاویز کو سیاست زدہ بنانے پر امریکا نے کس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا تھا۔

فیصل ترمذی نے ٹرائل کورٹ میں اپنے بیان میں کہا کہ اس وقت کی امریکا کی ناظم الامور انجیلا ایگلر نے انہیں ایک واٹس ایپ میسج بھیج کر پوچھا تھا کہ انہیں وہ دستاویز چاہئے جو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے لہرا کر دکھایا اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام امریکا پر عائد کیا۔ امریکی ناظم الامور نے اپنے میسج میں مزید کہا تھا کہ اس صورتحال کو امریکا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔

فیصل ترمذی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے بعد انہوں نے امریکی سفارت کار کا پیغام اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجا۔ اس کے بعد فوری طور پر وزیر خارجہ نے فون کال کرکے کہا کہ سائفر پیغام کو امریکی ناظم الامور کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سب 27؍ مارچ کو اسی دن ہوا جس نے عمران خان نے جلسے میں سائفر لہرا کر دکھایا۔

جہاں تک اسد مجید کا تعلق ہے تو انہوں نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے ڈونلڈ لُو کیلئے جو ورکنگ لنچ دیا وہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اسد مجید نے اپنی گواہی میں اسلام آباد کو ’’دھمکی‘‘ یا ’’سازش‘‘ کا لفظ استعمال کیے بغیر، گفتگو میرے ذریعے بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے دھمکی یا سازش کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہ اسلام آباد میں قیادت کی طرف سے اخذ کیا گیا ایک سیاسی نتیجہ تھا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ مواصلات سیکرٹری خارجہ کے نام بھیجی گئی تھی، جنہوں نے اپنی اہلیت کے مطابق تمام متعلقہ افراد کے ساتھ شیئر کی۔ قومی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ دونوں اپنی علیحدہ اجلاسوں میں اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی سازش نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’سائفر واقعہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات کیلئے ایک دھچکا تھا اور اس کے مستقبل کی سفارتی رپورٹنگ پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔‘‘

Back to top button