آدھے سر کا درد پورے سر کا درد بن چکا ہے

انسان کو روزمرہ زندگی کی مصروفیات نمٹاتے ہوئے تھکن کے باعث سر درد کا سامنا ہو جاتا ہے ، اس درد کی مختلف اقسام ہیں جو سر کے مختلف حصوں میں ہو سکتا ہے جن میں ایک آدھے سر کا درد یعنی مائگرین یا دردِ شقیقہ بھی ہے۔ جوانسانی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے،تاہم میڈیکل سائنس کی طرف سے اس بیماری کی اب تک نہ تو کوئی حتمی وجہ دریافت ہو سکی اور نہ ہی مکمل علاج سامنے آسکا۔
مائگرین کو صرف درد سمجھنا اب پرانی بات ہو چکی ہے۔ جہاں عام طور پر سر درد کو برداشت کیا جا سکتا ہے وہیں مائگرین بہت شدید درد ہوتا ہے اور انسانی جسم کو شل کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ بیماری خواتین میں زیادہ عام ہے۔ عام طور پر ہر 15 مردوں میں سے ایک کے مقابلے میں یہ ہر پانچ میں سے ایک عورت میں پائی جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارمونز کے بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ سے این ایچ ای ون میں تبدیلی رونما ہوتی ہے جو خواتین میں اس مرض کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔
ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر 19ویں صدی میں نوٹ کیا تھا کہ خواتین میں مائگرین زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس بیماری کا تعلق ذہن سے ہے اور انہوں نے اسے ‘نچلے طبقوں کی ماؤں’ کی بیماری قرار دیا جن کے ذہن ان کے مطابق روز مرّہ کے کام، کم نیند، بار بار دودھ پلانے اور غذائی قلت ک وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔
دردِ شقیقہ یا مائگرین انسانی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ 1200 قبلِ مسیح کی قدیم کتابوں میں بھی درد شقیقہ جیسی تکلیف کا تذکرہ ہے۔ مشہور یونانی طبیب بقراط نے اس بیماری کے ساتھ بینائی کے متاثر ہونے اور الٹیوں کے منسلک ہونے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔مگر دردِ شقیقہ کی اصل دریافت کا سہرا عموماً قدیم یونانی ڈاکٹر ایریٹائیس کو دیا جاتا ہے جو کیپاڈوچیہ سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے دوسری صدی میں بالکل درست انداز میں اس درد کے یکطرفہ ہونے اور علامات سے خالی اوقات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ درحقیقت دردِ شقیقہ کا انگریزی نام مائگرین یونانی اصطلاح ہیماکرینیا سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی آدھی کھوپڑی کے ہیں۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سر درد کی تکلیف اور ذہنی امراض کے درمیان بظاہر ایک تعلق ہے۔کئی سائنسی تحقیقوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مائگرین درحقیقت عموماً مختلف نفسیاتی عوارض سے منسلک ہیں۔ سنہ 2016 میں ہونے والی ایک ریویو تحقیق میں مائگرین اور بائے پولر ڈس آرڈر کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا جبکہ مائگرین سے متاثر لوگوں کے جنرل اینگزائٹی ڈس آرڈر سے متاثر ہونے کا خطرہ 2.5 گنا زیادہ تھا، جبکہ ڈپریشن کے شکار افراد میں مائگرین کا امکان تین گنا زیادہ تھا۔
ایک اور تحقیق نے پایا گیا کہ مائگرین سے متاثر ہر چھے میں سے ایک فرد نے زندگی کے کسی نہ کسی موقعے پر خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا۔ عام آبادی میں ہر 10 میں سے ایک شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں خودکشی کے خیالات آتے ہیں۔
اتنی بڑی آبادی کے مائگرین سے متاثر ہونے کے باوجود یہ عارضہ حیران کن طور پر کم ہی سمجھا گیا اور زیرِ تحقیق آیا ہے۔’نیورولوجی اور معاشرے میں کئی لوگ مائگرین کو بے ضرر مرض سمجھتے ہیں کہ یہ کینسر یا پارکنسن عارضہ تھوڑی ہے۔ لیکن اگر آپ اس کے ذاتی اور عوامی اثرات کا جائزہ لیں تو مائگرین ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
یوں تو مائگرین یا درد شقیقہ کے علاج کیلئے تحقیق آج بھی دنیا بھر میں جاری ہے لیکن وسائل اور بروقت خصوصی توجہ ضرور درکار ہے ، امید ہے کہ ایسی ایجاد مستقبل قریب ہی میں ہو گی جو مائگرین جیسے مرض کے خاتمے میں معاون ثابت ہو ۔