اس گاؤں کے باسی باہر جانے کے خبط میں کیوں مبتلا ہیں؟

پنجاب کا ایک چھوٹا سا گائوں کالو ساہی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں کے تقریباً ہر گھر کا کم از کم ایک فرد اپنی سماجی اور معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے روزگار کی غرض سے بیرون ملک جا چکا ہے۔ اسکے علاوہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش میں کئی گھرانے عمر بھر کی جمع پونجی لٹائے چکے ہیں اور کئی نوجوانوں تو زندہ واپس بھی نہیں آسکے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں ونیکے تارڑ روڈ پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرنے اور کئی چھوٹی اور پتلی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تبدل کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا گاؤں کالو ساہی آتا ہے۔300 گھروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گاؤں ایسی سینکڑوں کہانیاں رکھتا ہے جن میں سے ہر کہانی اپنے اندر درد کا ایک زاویہ سموئے ہوئے ہے۔ کالو ساہی گاؤں میں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کا کم از کم ایک فرد بیرون ملک نہ گیا ہو۔ اسی گائوں کے باسی 26 سالہ محمد جاوید بتاتے ہیں کہ جب گجرات، منڈی بہاؤالدین سے جہلم تک نوجوانوں پر بیرون ملک جانے کا جنون سوار تھا تو میں بھی اس جنون کا شکار ہو گیا۔ ایک بازو سے معذور جاوید کو ان کے والد نے اپنے گھر کے حالات بدلنے کے لیے چار سال مزدوری کر کے اور ادھار کی رقم سے یونان بھجوایا تھا۔ جاوید بتاتے ہیں کہ میں 2014 میں ایران اور ترکی کے راستے یونان پہنچا لیکن بدقسمتی سے آگے جیل میرا انتظار کر رہی تھی۔

وہاں جو کھانا دیا جا رہا تھا اس پر 24 گھنٹے گزارنا مشکل تھا۔ کافی لوگ جیل کے اندر بھی پاکستان سے ہی پیسے منگوا کر خوراک کی کمی پوری کر رہے تھے لیکن میرے والد تو مجھے ایک روپیہ بھی نہیں بھیج سکتے تھے۔ میں نے جیل میں بہت بھوک دیکھی۔ ایسی بے بسی تو غربت میں اپنے ملک میں بھی نہیں تھی۔ جاوید اب گزر بسر کے لیے ریڑھی لگاتے ہیں، اور یونان جانے کے لیے لیا جانے والا قرضہ اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس حال کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو بیرون ملک جا کر واپس آ جاتے ہیں لیکن وہاں کی صورت حال کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔ تاہم وہ خود بھی شرمندگی کے باعث اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتے۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق کالو ساہی کے نمبر دار زمان تارڑ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے تقریباً 400 تک نوجوان بیرون ممالک میں ہیں۔ جبکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک درجن کے قریب افراد ڈی پورٹ ہو کر واپس آئے ہیں اور پانچ افراد کی لاشیں واپس آئی ہیں۔

ہزاروں لوگوں کے ڈی پورٹ ہونے اور دوران سفر موت کا شکار ہونے کے باوجود یہ سلسلہ رکنے میں کیوں نہیں آرہا؟ اس سوال کا جواب کئی سماجی، معاشی اور نفسیاتی پہلووں میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے ذمہ دار ادارے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد اطہر وحید سمجھتے ہیں کہ اس سراب کے پیچھے طاقتور محرک معاشی صورتحال ہے۔ لوگ باہر سے دولت کمانے کے چکر میں اپنی جمع پونجی تک لگا دیتے ہیں۔ اوسطا 20 سے 25ہزار افراد ہر سال پاکستان واپس ڈیپورٹ ہوتے ہیں اور ہرسال اس سے دگنا لوگ غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑتے ہیں۔ اس میں ایک بڑا کردار ان انسانی سمگلروں کا ہے جو اس دھندے سے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔یہ سمگلرز چھپ کے کام کرتے ہیں۔ کبھی بھی پیسے خود وصول نہیں کرتے نہ سامنے آتے ہیں۔ اور ان میں پاکستان، ترکی، یونان اور ایران کے ایسے گروہ ہیں جو مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان ملکوں کے قانونی شہری ہیں اور اپنے اپنے کاروبار رکھنے کے علاوہ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔

کیا پاکستانی عوام عسکری شکنجے سے نکل پائیں گے؟

ایسے ہی تین بھائیوں کا ایک گروہ ہم نے پکڑا ہے جو تین مختلف ملکوں میں بیٹھے تھے دو ترکی میں تھے اور ایک یونان میں۔ اطہر وحید نے بتایا کہ انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے پاکستان نے 2018 میں قانون میں ترمیم کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ہیومین ٹریفکنگ، مہاجرین کی سمگلنگ اور ویزا فراڈ تین مختلف چیزیں ہیں۔ اس میں سے زیادہ سنگین معاملہ مہاجرین سمگلنگ کا ہے۔

باقی دو کے لیے کسی نہ کسی طرح قانونی طریقہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر صداقت علی کے مطابق بیرون ملک جانے کے رحجان کی ایک بڑی وجہ سماجی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اس نوجوان کے ذہن میں ایک دفعہ جھانک کر تو دیکھیں جس کے ہم عمر نوجوان باہر سے پیسے بھیج رہے ہیں۔ اور جب ایک گاؤں کی سطح پر باہر کے ملک جانا ایک سماجی برتری کے زمرے میں آئے اور اس پر فخر کیا جائے تو نوجوانوں میں شناخت کا شدید بحران جنم لیتا ہے۔

Back to top button