نواز شریف الیکشن کے بعد زرداری کے کس داؤ سے خوفزدہ ہیں؟
حکومت بنانے کے لئےآصف علی زرداری کی سیاست 8 فروری کے بعد شروع ہو گی ’نمبر گیمز‘ کے وہ ماسٹر ہیں اور یہی ان کی سیاست کا محور ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔ اب وہ کیا صرف بلاول کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں یا اپنے بارے میں بھی کچھ سوچ رہے ہیں یہ دیکھنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا… یہ سب باتیں میاں نواز شریف کو بھی پتا ہیں اور انہیں اب تک زرداری کی سیاست کا خاص حد تک علم بھی ہے۔ شاید یہی نواز شریف کی پریشانی کا سبب بھی ہے۔ نواز شریف نے پنجاب میں اب تک صرف ایک دو جلسے کئے تو یہ سمجھنے کیلئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہئے کہ ’’آل از ناٹ ویل‘‘۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار مظہر عباس نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ8؍فروری کا الیکشن تو ہوتا دکھائی دیتا ھے مگر پھر بھی نہ جانے کیوں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی ’فارم‘ میں نظر نہیں آ رہے۔ لگتا ہے انہیں ’لندن‘ میں جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اور ’مکمل اختیار والا اقتدار‘ نہیں دیا جا رہا۔ شاید یقین دہانیاں کرانے والوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ پنجاب، اس حد تک بدل گیا ہو گا۔ 2013ء کے الیکشن میں پی پی پی کو بھی یقین نہیں تھا کہ ان کو انتخابات میں ایسی بری شکست پنجاب میں نصیب ہو گی اور وہ اس خام خیالی میں رہے کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کا ووٹ لے جائے گی ۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو نےلاہور سے الیکشن لڑنے اور پنجاب میں واپس قدم جمانے کا بہتر سیاسی فیصلہ کیا۔ اس الیکشن میں نہیں تو آنے والے سالوں میں اگر وہ اپنی سیاست میں کچھ تبدیلی لائے تو کسی حد تک پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی ممکن ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو اقتدار سے باہر کرنے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ متفق تھیں۔ عمران بھی شریفوں، زرداری کو الیکشن ریس سے بلکہ سیاسی ریس سے باہر کروانا چاہتے تھے پہلے جنرل باجوہ کے ذریعے پھر جنرل فیض کے طور طریقوں سے۔ یہی وہ سیاسی ’دائرے‘ ہیں جس میں سیاست گھوم رہی ہے۔ بہر حال عمران اپریل 2022ء میں آئوٹ ہو گئے اور اس وقت سے واپسی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی 17ماہ کی حکومت نے جو کام کیے اس نے عمران کو ایک بار پھر مقبول ترین بنا دیا۔ میاں نواز شریف آج سے تین سال پہلے ’علاج‘ کی غرض سے عمران خان کی منظوری سے عدالت کی اجازت سے ’لندن‘ گئے تو انہیں اندازہ نہ تھا کہ واپس آئیں گے تو بھائی کی پالیسیوں کی وجہ سے پنجاب بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔
مظہر عباس کے مطابق واقعی شہباز شریف نے سچ ہی تو کہا تھا کہ ’ہم نے اپنی سیاست قربان کر دی‘ اب ریاست کو کیسے بچایا یہ تو کوئی اسحاق ڈار صاحب سے پوچھے۔ نواز شریف نے 2013 کے بعد اپنے قریب ترین ساتھی چوہدری نثار علی خان کو کھویا اور 2023 میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل کو ،محمد زبیر اور آصف کرمانی بھی ہاتھ سے گئے نہیں تو ناراض تو یقینی طور پر ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) اور خاص طور پر نواز شریف کو لولی لنگڑی حکومت دلوا بھی دی گئی تو وہ کیا خود وزیر اعظم بننا پسند کریں گے، اس سوال کا جواب چند دنوں میں آ جائے گا۔ شریفوں کیلئے وزارت عظمیٰ سے زیادہ ’تخت پنجاب‘ ضروری ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت میدان میں جتنی بھی جماعتیں اور رہنما ہیں سب کا ایک ہی منشور ہے، ایک ہی دستور ہے اور وہ ھے ’حصول اقتدار‘ ۔۔۔ 8فروری کے الیکشن تو ویسے بھی ماورائے آئین ہو رہے ہیں ورنہ تو اب تک ایک منتخب حکومت کو تین ماہ ہو چکے ہوتے ۔ پاکستان‘ کو اسٹیٹ بنانا تھا ہم نے ’رئیل اسٹیٹ‘ بنا دیا۔ اسی لیے آج بلڈرز سیاست میں بھی ہیں اور صحافت میں بھی ۔ ہم اصل پاکستان سے بہت دور چلے گئے ہیں جمہوریت محض مفادات کا ٹکرائو بن کر رہ گئی ہے۔ دیکھتے ہیں 8فروری کو ’کونسی جمہوریت‘ کا سورج طلوع ہوتا ہے اور کونسی جمہوریت غروب ہوتی ہے۔