نون لیگ الیکشن میں کون سا جارحانہ بیانیہ اپنانے والی ہے؟

پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تاحال انتخابی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پارٹی اجلاسوں اور عوامی اجتماعات میں مختلف سیاسی بیانیے اپنا رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے ماضی، تاریخ، لیول پلیئنگ فیلڈ اور کسی کو لاڈلہ بنائے جانے کے بیانیے پر کار بند ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) معیشت کی بہتری کا نعرہ لگاتے ہوئے دبے لفظوں میں سابق اسٹیبلشمنٹ کے احتساب کی باتیں کر رہی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو امید ہے کہ وہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں دوبارہ واپس آ سکتی ہے۔
ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایسے وقت میں مختلف سیاسی بیانیے پیش کر رہی ہیں جب بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں، نواز شریف کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر رہے ہیں۔مبصرین سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے بیانیے میں تضاد ہے اس لیے انہیں اپنا سیاسی تلخ ماضی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائیوں کو بھلانا ہو گا جبکہ پی ٹی آئی کو کسی بیانیے کی ضرورت نہیں اور پیپلز پارٹی کو سندھ کے انتخابی محاز پر توجہ دینا ہو گی۔
تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کے خیال میں پی ٹی آئی کا بیانیہ تو پہلے سے بن چکا ہے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مشکل یہ ہے کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک ساتھ حکومت میں رہی ہیں اور انہیں نئے سیاسی بیانیے کی ضرورت ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنے سیاسی جلسوں میں نواز شریف پر برس رہے ہیں اور وہ انہیں اقتدار میں واپس آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔بلاول سمجھتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کا اتحاد ہو چکا ہے تو شاید نواز شریف پر تنقیدی بیانیے سے سندھ میں اِس کی تھوڑی بہت اہمیت ہو لیکن پنجاب میں یہ بیانیہ نہیں چل سکتا، کیونکہ سب کو پتا ہے کہ پیپلز پارٹی سولہ ماہ کی حکومت میں (ن) لیگ کی اتحادی تھی۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ وسطی پنجاب میں ماسوائے دو نشستیں، راجہ پرویز اشرف اور فیصل صالح حیات کی نشستوں پر مقابلہ ہے اور وسطی پنجاب کے دیگر علاقوں میں پیپلز پارٹی کی کوئی محفوظ نشست نہیں۔
دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کے خیال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سب سے بڑی مشکل کا سامنا یہ ہے کہ اُن کے پاس کوئی بیانیہ نہیں۔ اُنہیں نہ عوامی تائید حاصل ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ ڈھنگ کے پروگرام پر عمل پیرا ہو سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کبھی ووٹ کو عزت دو سے شروع ہوتی ہے، کبھی وہ اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہوتی ہے اور اب اسٹیبلشمنٹ ہی کے ذریعے اپنی ساری کارکردگیاں گنوا رہی ہے۔ اِسی طرح پیپلز پارٹی اپنے ماضی، تاریخ، لیول پلیئنگ فیلڈ اور کسی کو لاڈلہ بنائے جانے کے بیانیے پر کاربند ہے۔ان کے بقول، پی ٹی آئی کو کسی بیانیے کی ضرورت نہیں، پولیس اور انتظامیہ کے دباؤ کے باوجود اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی موجودگی نظام میں رہی تو یہ کافی ہے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف ان دنوں الیکشن کے لیے اپنی جماعت کے امیدواروں کو ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے انٹرویوز کر رہے ہیں اور ڈویژن کی سطح پر اپنی جماعت کے اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہیں۔ تنظیمی اجلاسوں میں اِس بات پر بھی غور ہو رہا ہے کہ نواز شریف سے لاڈلے کا ٹیگ کیسے ہٹایا جائے۔پارٹی اجلاسوں کے دوران نواز شریف تھوڑا جارحانہ انداز بھی اپنا رہے ہیں اور وہ مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں اور ملک کی خرابی کے ذمہ داروں کا تعین کر کے اُن کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی۔
سہیل وڑائچ کے خیال میں نواز شریف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آج کی ‘مقتدرہ’ کے ساتھ صلح ہے اور ماضی کی مقتدرہ کے ساتھ لڑائیاں رہی ہیں۔ آج کی عدلیہ سے اُنہیں ریلیف مل رہے ہیں جبکہ ماضی کی عدلیہ پر اُنہیں تنقید کرنی ہے۔ یہ تضاد نواز شریف کے بیانیے میں جھلک رہا ہے لیکن اُنہیں یہ واضح کرنا ہو گا کہ وہ کس طرح اِس تضاد سے نکلیں گے۔اُن کی رائے میں پاکستان میں ہر ادارہ دوسرے ادارے کے خلاف بغض، حسد اور نفرت رکھتا ہے۔ ملک میں کوئی ایسی روایت نہیں کہ ‘مقتدرہ’ خود کو احتساب کے لیے پیش کر دے، اِسی طرح عدلیہ ہے۔ کیا عدلیہ یہ تسلیم کرے گی کہ ماضی میں عدالتوں نے کچھ ایسے فیصلے دیے ہیں جو غلط تھے؟ ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
واضح رہے کہ نواز شریف رواں برس 21 اکتوبر کو اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان آئے ہیں۔ وہ لندن میں اپنے قیام کے دوران پاکستان کے ماضی کے فوجی حکام اور ماضی کی عدلیہ پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر اِس تنقید میں اب کچھ نرمی دیکھی جا سکتی ہے۔