نیب کی احتساب عدالتیں خزانے کے لیے بوجھ بن گئیں
سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں میں مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے کراچی میں قائم گئی چھ احتساب عدالتوں میں سے صرف ایک فنکشنل ہے جبکہ باقی پانچ عدالتوں میں جج تعینات نہ ہونے کے باعث عملہ مفت تنخواہیں وصول کر رہا ہے کیونکہ ان کے پاس کرنے کو دھیلے کا بھی کام نہیں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی انجینرنگ کے لئے قائم کئے جانے والے ادارے نیب کی طرح اب اسکی عدالتیں بھی قومی خزانے کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہو رہی ہیں جبکہ ہزاروں کیسز کے فیصلے ہونا باقی ہیں۔
قومی احتساب بیورو کی جانب سے انسداد بدعنوانی کی جارحانہ مہم کے بعد مقدمات میں ممکنہ اضافے کے پیش نظر کراچی میں قائم کی جانے والی 6 نئی احتساب عدالتوں میں سے 5 عدالتیں قومی خزانے پر بوجھ بنتی دکھائی دے رہی ہیں، کیونکہ یہ عدالتیں ججوں کی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی ماہ سے غیر فعال ہیں۔ ذرائع کا اندازہ ہے کہ احتساب عدالت(1) کے پاس 2021 کے آخر تک 40 ریفرنسز زیر سماعت تھے جس کے دوران اس نے ترمیم شدہ قانون کی منظوری کے بعد تقریباً 190 ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں۔ احتساب عدالت (2) کے پاس تقریباً 48 ریفرنسز زیر سماعت تھے جبکہ اس نے 2021 میں تقریباً 40 مشتبہ افراد کو ضمانت دی تھی۔ احتساب عدالت (3) کے پاس 2021 کے آخر تک تقریباً 40 ریفرنسز زیر سماعت تھے۔ احتساب عدالت (4) کے پاس تقریباً 41 ریفرنسز زیر سماعت تھے جبکہ اس نے گزشتہ سال تقریباً 48 مشتبہ افراد کو ضمانت دی تھی۔
کراچی شہر میں موجود چار احتساب عدالتیں، جنہیں نیب کورٹس بھی کہا جاتا ہے سندھ حکومت کی بیرکوں میں کام کر رہی تھیں جن پر مقدمات کا بوجھ زیادہ تھا۔ عدالتی اور استغاثہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے چھ ماہ قبل کراچی میں چھ اضافی عدالتیں قائم کی تھیں تاکہ موجودہ چار عدالتوں کے ججوں پر کام کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ نئی عدالتیں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل میں قائم کی گئی تھیں، سپریم کورٹ نے ایک ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کرتے ہوئے احتساب عدالتوں میں مقدمات کی سماعت میں تاخیر کا نوٹس لیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کو نئی عدالتیں بنانے کی ہدایت کی تھی تاکہ موجودہ عدالتوں کے ججوں پر کام کا بوجھ کم ہو اور بدعنوانی سے متعلق مقدمات کی جلد سماعت کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی حکومت نے کلفٹن میں میونسپل ٹریننگ اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں چھ نئی عدالتیں قائم کی تھیں جو کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی کراچی سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کرنے کے بعد خالی پڑی تھیں۔ حکام نے مزید بتایا کہ حکومت نے ججوں کی تنخواہوں، عملے اور دیگر اخراجات وغیرہ کی مد میں ایک کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز بھی مختص کیے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے وزارت قانون و انصاف کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ جوڈیشل افسران کو پریزائیڈنگ افسران کی تقرری کے لیے نامزد کیا جائے تاکہ نئی قائم ہونے والی احتساب عدالتوں میں خالی اسامیوں کو پر کیا جا سکے۔
سندھ ہائی کورٹ نے نئی عدالتوں میں تقرری کے لیے چھ جوڈیشل افسران کو وفاقی وزارت قانون و انصاف کو نامزد کیا تھا لیکن وزارت قانون نے صرف ایک پریزائیڈنگ افسر کو صرف ایک نئی احتساب عدالت میں تعینات کیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پانچ دیگر عدالتیں پریزائیڈنگ افسران کی تقرری نہ ہونے کے باعث ابھی تک خالی ہیں جبکہ دیگر عدالتی عملہ تعینات ہے اور بغیر کوئی کام کیے بغیر ہر ماہ تنخواہیں وصول کر رہا ہے۔ موجودہ چار عدالتوں میں سے احتساب عدالت کی جج ڈاکٹر شیر بانو کریم بھی رواں سال جنوری میں ریٹائر ہو گئیں جس کے بعد اس وقت صرف تین احتساب عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حال ہی میں حکومت نے اے سی 3 کا اضافی چارج اے سی 4 کو دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، اس عدالت میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی اور ان کے خاندان کے افراد اور پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اور دیگر کے خلاف ہائی پروفائل کیسز زیر التوا ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرپشن، بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکہ دینے سے متعلق تقریباً 169 ریفرنسز تینوں کام کرنے والی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
عدالتی اور استغاثہ ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے چند سال قبل سیاستدانوں، سرکاری افسران اور پرائیویٹ افراد بالخصوص بلڈرز اور ڈویلپرز کے خلاف جارحانہ مہم شروع کرنے کے بعد عدالتوں پر کام کا بوجھ تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔ تاہم، قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم کے بعد وفاقی حکومت نے کیسز کی کچھ کیٹیگریز کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کر دیا جس کے باعث اس طرح کے ریفرنسز کی تعداد بڑھنا بند ہو گئی۔