وقار ذکاء نے عمران سے وزارت عظمیٰ کیوں مانگ لی؟

ریئلیٹی شو میزبان وقار ذکا نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی کے ذریعے پاکستان کا سارا قرضہ اتار سکتے ہیں مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اقتدار چھوڑ کر ان کے حوالے کر دیں۔
یاد رہے کہ 2013 کے الیکشن میں وقار ذکا نے کراچی کے حلقے این اے 253 سے قومی اسمبلی کی نشست کےلیے بھی انتخاب لڑا تھا، جس میں انہیں بری طرح شکست ہوئی تھی۔ وقار ذکا کو صرف 31 ووٹ ملے تھے۔
اب وقار ذکا نے ٹویٹر پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے پاکستان کا قرض ادا کر سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ عمران خان اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور ملک مجھے چلانے دیں۔ وقار نے کہا کہ اگر عمران ایسا نہیں کر سکتے تو بدعنوانی سے نفرت کرنے والے وزیراعظم اعظم پاکستانیوں کو بتائیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل کیا ہے: انہوں نے سوال کیا کہ آیا عمران کے کہنے کے مطابق زیتون کی کاشت سے ملک کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں؟‘
خیال رہے کہ وقار ذکا ایک معروف ٹی وی ہوسٹ ہونے کے ساتھ ’سوشل میڈیا سینسیشن‘ بھی مانے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل بھی وقار کرپٹو کرنسی سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی دعوے کرتے آئے ہیں تاہم حالیہ ٹویٹ کو ان کے فالوورز کی جانب سے اب تک کا سب سے جرأت مندانہ اقدام مانا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں وقار تحریکِ انصاف اور وزیرِ اعظم عمران خان کے بڑے حامی کے طور پر سامنے آئے تھے لیکن اب کچھ عرصے سے وہ عمران خان پر مسلسل تنقید کرتے آ رہے ہیں اور اب تو اپنے ہی پسندیدہ لیڈر کو چیلینج دے دیا ہے کہ ’کرسی چھوڑ کر مجھے ملک چلانے دیا جائے۔‘ وقار ذکا کے اس دعوے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے جس میں تحریکِ انصاف کے حامی اور مخالفین پیش پیش ہیں۔ لیکن اس سے پہلے جانتے ہیں کہ وقار ذکا ہیں کون اور ان کا پسِ منظر کیا ہے۔
وقار ذکا کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز نجی چینل انڈس میوزک سے کیا تھا اور سب سے پہلے ایک وی جے کی حیثیت سے سامنے آئے تھے۔ بعد میں انہیں لیونگ آن دا ایج، ایسپوزڈ، کنگ آف اسٹریٹ میجک، دیسی کڑیاں اور دا کرکٹ چیلنج جیسے شوز سے خاصی پذیرائی ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سوشل میڈیا سینسیشن بن گئے۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں پب جی پر عائد پابندی کے خلاف احتجاجی کیمپینز بھی چلائیں تھیں۔ اس کے علاوہ وہ کورونا وائرس کے دوران امتحانات کی منسوخی کےلیے طلبہ کی حمایت کرتے بھی نظر آئے ہیں۔ ٹویٹر اور انسٹاگرام پر ان کے تقریباً پانچ، پانچ لاکھ فالوورز ہیں اور فیس بک پر بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد ان کے مداح ہیں۔ سوشل میڈیا پر پذایرائی ملنے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر متعدد ایسے پرائیوٹ گروپس بنا رکھے ہیں جہاں وہ گزشتہ پانچ سال سے لوگوں کو کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے کے طریقے بتاتے ہیں اور انہیں اس شعبے کی جانب آنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اپنے پبلک اکاؤنٹس پر وہ روزانہ کرپٹو سے ہونے والے مالی فائدوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ آپ بھی میرا گروپ جوائن کریں اور پیسے کمائیں۔
انہی گروپس میں سے ایک شخص نے بتایا کہ ان گروپس میں داخلہ فیس دیے بغیر ممکن نہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ وقار کا دعویٰ ہے کہ وہ ممبران کو کرپٹو کے متعلق معلومات اور کرپٹو کرنسی سے پیسے کمانے کے طریقے بتاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان گروپس میں کرپٹو کے ذریعے فائدہ لینے والے افراد کی بھی مثالیں موجود ہیں تاہم لوگوں کو نقصان بھی ہوتا ہے۔ چند دن قبل خود وقار ذکا ایک ویڈیو میں بتا رہے تھے کہ کیسے انہیں تقریباً چار لاکھ ڈالر کا نقصان ہوگیا اور ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ رقم جلد واپس حاصل کر لیں گے۔
اگرچہ وقار ذکا اکثر اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے کرپٹو کرنسی میں اپنی مہارت کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں تاہم اس حوالے سے ان کی مہارت کے متعلق اب تک کوئی تصدیق شدہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ کریپٹو کرنسی کا کاروبار دنیا بھر میں ہو رہا ہے جس میں اب تک پانچ ہزار سے زیادہ کرنسیاں آ چکی ہیں لیکن اس وقت ٹاپ پر بٹ کوائن ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مئی 2017 کو پاکستان میں اس کرنسی کے استعمال، خرید وفروخت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ملک کے تمام بینکوں کو تنبیہ کی تھی کہ بٹ کوائن، لائٹ کوائن، اور پاک کوائن سمیت تمام ورچوئل کرنسیوں کی مدد سے ہونے والے کسی بھی لین دین کو مشکوک قرار دے کر اسٹیٹ بینک کو مطلع کریں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اس کرنسی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ رواں برس جنوری میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں کرپٹو کرنسی کے ‘مائیننگ فارم’ کو قبضے میں لے کر دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ مائیننگ فارم پہاڑی علاقے میں تعمیر کیا گیا تھا جب کہ اس سارے نظام کو اوکاڑہ سے آن لائن کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ ماہ لاہور میں پولیس کی کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی نے دو غیر ملکیوں، میگرون ماریہ سپاری اور اسٹیفن کے اغوا اور بٹ کوائن میں تاوان وصول کرنے کے کیس میں ملوث مرکزی ملزم رانا عرفان کے علاوہ باقی چھ ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق رانا عرفان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے غیر ملکی جوڑے کو فلمی انداز میں اغوا کرنے کے بعد گن پوائنٹ پر ان سے بٹ کوائن میں ڈیڑھ کروڑ روپے کے قریب رقم تاوان کی صورت میں چھین لیے تھے اور واردات کی اگلی صبح اسلام آباد سے بذریعہ ترکی یورپ فرار ہوگیا تھا۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سنہ 2013 کے الیکشن میں وقار ذکا نے کراچی کے حلقے این اے 253 سے قومی اسمبلی کی نشست کےلیے بھی انتخاب لڑا تھا، جس میں انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اس حلقے سے ڈالے گئے کل 211768 ووٹوں میں سے وقار ذکا کو صرف 31 ووٹ ملے تھے اور ان کی ضمانت ضبط کر لی گئی تھی۔
گزشتہ برس وقار ذکا نے ایک بار پھر سے سیاست کے میدان کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور ’تحریکِ ٹیکنالوجی موومنٹ پاکستان‘ کے نام سے اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان بھی کیا تھا۔
پاکستان میں اس وقت وقار ذکا کا نام ٹاپ ٹرینڈ ہے اور ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر کافی دلچسپ تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ وقار ذکا کے پرائیوٹ گروپس کا حصہ بیشتر افراد کرپٹو کے ذریعے ہونے والے مالی فوائد کا ذکر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ چونکہ وقار ذکا وبا کے دوران امتحانات کی منسوخی کےلیے آواز بلند کرتے آئے ہیں، لہٰذا پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی اکثریت بھی ان کی حمایت میں ٹویٹس کر رہی ہے۔ تاہم کچھ افراد ذکا پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں چیلنج بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹویٹر پر موجود ایک ڈیٹا سائنسدان نے لکھا کہ ’مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آپ کو کرپٹو کی الف ب بھی پتا نہیں ہوگی۔ اور آپ فیس بک پر مہینے کے پندرہ سو، دو ہزار لے کر بچوں کو چونا لگا رہے ہیں۔‘ انہوں نے وقار کو چیلنج کیا کہ آئیے کرپٹو کرنسی کے تکنیکی تجزیہ پر اسپیس سیشن کرتے ہیں۔
تاہم ایسے افراد بھی ہیں جو وقار ذکا کی حمایت کرتے اور کرپٹو کے ذریعے ہونے والے مالی فوائد کی تفصیلات ٹویٹ کر رہے ہیں۔ اور چونکہ وقار ذکا تحریکِ انصاف کے حامی مانے جاتے ہیں لہٰذا پی ٹی آئی کے حامی اور اپوزیشن جماعتوں کے حمایتی بھی اس بحث میں پیش پیش ہیں۔ محسن نامی صارف نے لکھا ’میں تیزاب کا استعمال کرکے ہائیڈروجن بم بنا سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ تمام سائنس دانوں اور محققین کو عہدہ چھوڑ کر مجھے ٹیسٹ کرنے دینا ہوگا۔‘
صحافی اویس سلیم نے لکھا ’ایک چانس تو ان کو بھی دینا بنتا ہے۔ اگر ہم ملک ریاض اور وقار ذکا دونوں کو معاشی میدان میں اتار دیں، تو کیا عجب کہ ہم دوسرے ملکوں کو قرضے دینے کے قابل ہو جائیں؟‘ ایک اور سوشل میڈیا صارفین حمید بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ’بیشک ہمیں ایسے عظیم لوگوں کو آزماتے رہنا چاہیے۔ کبھی تو تُکا لگ ہی جائے گا۔‘
تاہم اس ساری صورت حال سے لطف اندوز ہونے والوں کی بھی کمی نہیں۔
کامران بشیر نے لکھا ’آغا وقار کی پانی والی گاڑی کے بعد وقار ذکا کی پاکستان کا قرض اتارنے کی سائنس۔‘