عمران کی اپنا اپوزیشن لیڈر بنوانے کی ناکام کوشش

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے 81 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کیے جانے کے بعد اب عمران خان نے اپنے بقیہ 49 ارکان کے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ باغی ہو جانے والے راجہ ریاض کی جگہ اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا جا سکے۔ لیکن عمران خان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی اگر مزید 29 ارکان اسمبلی یا اس سے زائد کے استعفے منظور کرلیں تو راجہ ریاض گروپ کے اراکین کی تعداد بڑھ جائے گی اور انہی کا اپوزیشن لیڈر نامزد کیا جائے گا۔ قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق اپوزیشن لیڈر ایوان میں اپوزیشن بینچز پر موجود اکثریتی جماعت نامزد کرتی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک انصاف کے مزید اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کئے جانے کا بھی قوی امکان ہے۔
اس حوالے سے پارلیمنٹ کے اعداد و شمار اور قانون سازی پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بتایا کہ ’رولز کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے سے نہیں روک سکتے۔‘ احمد بلال محبوب کے مطابق ’پی ٹی آئی اگر پارلیمنٹ میں واپس آتی ہے تو وہ اس وقت اپوزیشن بینچوں پر سب سے بڑی جماعت ہو گی اور رولز کے مطابق اپوزیشن لیڈر بھی ان ہی کا ہو گا۔‘ لیکن انہوں نے کہا کہ ’اگر اس وقت پی ٹی آئی کے مزید استعفے منظور کر لیے جائیں اور ان کی تعداد راجہ ریاض گروپ سے بھی کم ہو جاتی ہے تو پھر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں پی ٹی آئی کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔‘ یاد رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے 20 جنوری کو تحریک انصاف کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کر لیے۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ پارٹی وفد سپیکر قومی اسمبلی سے آج ملاقات کرے گا، جس میں سپیکر سے قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا عہدہ مانگا جائے گا۔ تاہم سیاسی تجزیہ کار اس فیصلے کو عمران خان کی جانب سے اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد جہاں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ وفاقی حکومت کو سیاسی بحران حل کرنے میں مشکلات درپیش ہوں گی وہیں سپیکر کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد ایک نئی صورت حال ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا سابق وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں واپس آنے کا عندیہ حکومت کے لیے چیلنج ہے؟ کیا عمران خان کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ غلط تھا؟ کیا اب عمران خان کے پاس حکومت کو عام انتخابات کروانے پر مجبور کرنے کے لیے کوئی آپشن موجود ہے یا نہیں؟ کیا پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آ کر شہباز شریف کو اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر ایک سنگین غلطی کی۔ اب جب استعفے قبول کئے جارہے ہیں تو پی ٹی آئی نے تڑپنا شروع کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ استعفوں پر اب ان کی مرضی نہیں چلے گی کیونکہ وہ اپریل 2022 میں استعفے دے چکے تھے۔ پبلک فورمز پر کہا جاتا رہا کہ استعفے منظور کریں، اب استعفے منظور ہونے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ ہمیں واپس آنا ہے۔‘ پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپس آنے کے عندیے کے بعد استعفے منظور ہونے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن نے یہی پلان کیا تھا۔ جب آپ کھیلیں تو پھر ہم بھی اسی حساب سے کھیلیں گے، یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم ان کے لیے چیزیں آرام دہ بنا سکتے تھے۔ ‘
یاد رہے کہ 81 استعفے منظور ہونے کے بعد اب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اراکین کی تعداد 49 رہ گئی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے 20 اراکین قومی اسمبلی میں پہلے سے موجود ہیں جن میں سے راجہ ریاض قائد حزب اختلاف ہیں۔ پی ٹی آئی کے باقی 49 اراکین اب بھی اپنا قائد حزب اختلاف بنا سکتے ہیں، لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہو گا اگر سپیکر باقی استعفے قبول نہیں کرتے۔ لیکن قوی امکان ہے کہ راجہ پرویز اشرف اگلے چند روز میں مزید استعفے بھی قبول کرلیں گے۔ یوں عمران خان حکومت کے ہاتھوں ایک اور محاذ پر شکست کھا جائیں گے جس کی ذمہ داری خود ان پرعائدہوتی ہے۔