کامیاب ہونیوالے آزاد امیدواروں کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟

اندازوں، تجزیوں کے برعکس آزاد امیدواروں نے الیکشن 2024 میں میدان مار لیا ہے، کامیاب آزاد امیدواروں کی تعداد کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہے، ان میں سے اکثر کو عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی۔اب تک قریب 50 آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لی ہیں جن میں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سینیئر نائب صدر لطیف کھوسہ، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور پارٹی رکن علی امین گنڈاپور شامل ہیں۔دوسری طرف خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو بڑی اکثریت ملی ہے، الیکشن قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت قانونی طور پر لازم نہیں، یعنی وہ چاہیں تو آزاد حیثیت میں قومی یا صوبائی اسمبلی میں رہ سکتے ہیں۔سیاسی تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ جیتنے کے بعد ان امیدواروں کے پاس تین دن کا وقت ہوگا جس دوران انھیں کوئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق آزاد امیدوار صرف اسی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں جس کا انتخابی نشان انھیں بیلٹ میں دیا جاتا ہے۔ ’پاکستان تحریکِ انصاف اب فعال نہیں تو یہ ان آزاد امیدواروں کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کس پارٹی کو جوائن کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کے نتائج کا اعلان کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد شروع کیا۔ اب تک کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا سے، مسلم لیگ ن پنجاب سے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں آگے ہیں۔آزاد امیدواروں کی خیبرپختونخوا میں حیران کن کامیابی کے نتیجے میں انھیں دو بڑی جماعتوں کی جانب سے شمولیت کی پیشکش آ رہی ہیں۔ ان میں جہاں بلاول بھٹو زرداری نے انھیں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی تو وہیں پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی کہا کہ اسے آزاد امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت ایک ’منقسم مینڈیٹ‘ سامنے آ رہا ہے جس کے نتیجے میں حکومتی اتحاد ضروری ہے، رفیع اللہ نے کہا کہ ’جہاں ن لیگ شمالی پنجاب میں جیت رہی ہے۔ وہیں وسطی پنجاب میں اب تک ہار رہی ہے۔ 266 کی کُل تعداد میں سے 134 ارکان چاہئیں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بنانے کے لیے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ ’جہاں ن لیگ کے 80 ارکان تک رُکنے کے چانسز ہیں وہیں پیپلز پارٹی کے بھی 50 یا 55 ارکان کے کامیاب ہونے کا امکان ہے تو ایسے میں آزاد امیدوار آپ کی جماعت کے نمبر بڑھانے میں مدد کرسکتے ہیں۔واضح رہے کہ ایک بڑے انتخابی اپ سیٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے شکست دے دی۔نواز شریف لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے 130 سے بھی مسلم لیگ کے امیدوار تھے جہاں انھوں نے کامیابی حاصل کی ہے، جب رفیع اللہ کاکڑ سے سوال پوچھا کہ کیا آزاد امیدوار اپنا وزیرِ اعظم منتخب کر سکتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بالکل کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ان کے پاس 266 کی اسمبلی میں 134 نشستیں ہیں تو وہ ایسا بالکل کرسکتے ہیں۔

Back to top button