مشرف کے خاندان نے وطن واپسی کا پلان کینسل کیوں کیا؟

جنرل مشرف کے خاندان کی جانب سے انہیں پاکستان واپس لانے کا منصوبہ کینسل کرنے کی وجہ یہاں علاج کی سہولیات کا فقدان بتائی جا رہی ہے لیکن با خبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ واپسی بارے ذہن بدلنے کی اصل وجہ انکے خلاف سزائے موت کا عدالتی فیصلہ ہے جس کے باعث اگر وہ پاکستان آتے بھی ہیں تو انہیں ہر صورت عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق مشرف کے خاندان کو بتا دیا گیا تھا کہ وطن واپسی پر انھیں ہسپتال منتقل کر کے ان کے کمرے کو سب جیل قرار دے دیا جائے گا۔ تاہم چونکہ مشرف کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں لہٰذا ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ ان کی موت سب جیل کی بجائے دبئی میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تاہم مشرف کی ممکنہ موت کی صورت میں انکی پاکستان میں تدفین کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
تاریخی اقدام، اسلام آباد ہائیکورٹ کی لائیو سٹریمنگ کا فیصلہ
حال ہی میں سیاسی رہنماؤں اور پاکستانی فوج کے ترجمان کی جانب سے دیے گئے بیانات کے بعد مشرف کی فیملی کی جانب سے 19 جون کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ہم سے وطن واپسی میں سہولت کاری کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع کی طرف سے رابطہ کیا گیا جس پر ہم تہہ دل سے مشکور ہیں کیونکہ پاکستان پرویز مشرف کا گھر ہے۔ لیکن مشرف کی صحت کو لاحق خطرات، علاج اور ادویات کی پاکستان میں عدم دستیابی اور سکیورٹی چیلنجز کا حوالہ دے کر اس بیان میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے اہلخانہ کو اہم قانونی چیلنجز پر بھی غور کرنا ہو گا جو وطن واپسی پر درپیش ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے 9 جون کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’جنرل مشرف کی خراب صحت کے پیش نظر ان کو وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘اس ٹویٹ کے چند روز بعد مشرف کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والے نواز شریف نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’اگر پرویز مشرف وطن واپس آنا چاہیں تو حکومت انھیں ہر ممکن سہولت فراہم کرے۔‘اس کے بعد فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے بھی تصدیق کی تھی کہ فوج کی جانب سے جنرل مشرف کی واپسی کے بارے میں ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے۔
جہاں پاکستان میں سوشل میڈیا پر ووٹ کو عزت دینے کی دعویدار مسلم لیگ ن کے ان بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں اب یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مشرف پاکستان واپس آتے ہیں تو انھیں کن قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شہری کو اپنے ملک واپس آنے سے تو نہیں روکا جا سکتا لیکن پرویز مشرف کو وطن واپس آنے کے بعد ان کے خلاف درج ہونے والے زیر التوا مقدمات میں عدالتی کارروائی اور ان کی عدم موجودگی میں دیے گئے عدالتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ مشرف اسوقت چار مختلف مقدمات میں اشتہاری ہیں، جن میں سے ایک آئین شکنی کا مقدمہ، دوسرا سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ، تیسرا 2007 میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلٰی عدلیہ کے ججز کو حبسِ بےجا میں رکھنے کا مقدمہ جبکہ چوتھا مقدمہ لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے قتل سے متعلق ہے۔
ان مقدمات میں عدالت نے مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے سے متعلق بھی احکامات جاری کر رکھے ہیں۔
آئین شکنی کے مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سُنایا تھا۔ اس خصوصی عدالت کے سربراہ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’مجرم پرویز مشرف جب بھی وطن واپس آئیں ان کو موت کی سزا دینے کے بعد تین روز تک ان کی لاش کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔‘ تاہم خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے تین ہفتے بعد ہی لاہور ہائی کورٹ نے ایک شہری کی درخواست پر 13 جنوری 2020 میں خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس کے بعد بعض قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ عدالت کی تشکیل غیر آئینی ہونے کے بعد اس عدالت کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس بنیاد پر خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل کا معاملہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر دیا گیا تھا۔ تاہم آئینی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ پارلیمنٹ کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی۔ چنانچہ مشرف کے وکلا نے خصوصی عدالت کی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ لیکن سپریم کورٹ نے مشرف کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ انہیں آئین شکنی پر سزائے موت کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے لہذا انہیں اپیل دائر کرنے کے لئے خود عدالت میں پیش ہوکر پہلے سرنڈر کرنا ہوگا۔ لہذا ان حالات میں خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ برقرار ہے۔
قانونی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان واپسی پر مشرف کو طبی سہولیات فراہم کرنے سے پہلے عدالتی اور قانونی کارروائی کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرف کی صحت کی خرابی کیوجہ سے اگر انھیں ہسپتال بھی منتقل کر دیا جاتا ہے تو ان کے کمرے کو سب جیل قرار دینا لازمی ہوگا چونکہ وہ ایک سزا یافتہ مجرم ہیں۔ لیکن مشرف کے خاندان کو یہ قابل قبول نہیں ہے۔
مشرف کے خلاف باقی تین مقدمات اسلام آباد اور راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں تاہم ان پر عدالتی کارروائی شروع ہونا مشرف کی متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے سے مشروط ہے۔ دوسری جانب ماہرِ قانون حامد خان کی رائے ہے کہ وطن واپس آنے کی صورت میں پرویز مشرف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا چاہے وہ بسترِ مرگ پر ہی کیوں نہ ہوں۔‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی صورت میں ملزم کو طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے جلد ضمانت مل جاتی ہے۔‘ حامد خان کا کہنا تھا کہ ’بااثر حلقوں کی طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں ان پر کوئی عدالتی کارروائی نہ ہو اور وہ پاکستان آ کر اپنی زندگی کے دن پورے کریں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست ڈھائی سال سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے لیکن ابھی تک کسی بھی چیف جسٹس کو اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس درخواست پر فیصلہ ہو جانا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ درخواست اعلٰی عدلیہ کے چہرے پرایک بدنما داغ بن کر رہ جائے گی۔‘