کپتان کے حامی اینکرز اور کالم نگار بھی ان سے مایوس ہو گئے

وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف حکومت کی اٹھارہ ماہ کی بدترین کارکردگی نے عوام کو زندہ درگور کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ ثابت کرنے والے اینکرپرسنزاور کالم نگاروں کو بھی ان سے مایوس کردیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کے تین بڑے حامی اینکرزاور کالم نگار بھی مان گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے محبوب کپتان کو سمجھنے میں غلطی کی۔ کپتان کے شان میں قصیدے لکھ کر اور بیان کرکے رائے عامہ ہموار کرنے والے لکھاری اور تجزیہ کار بھی تحریک انصاف کے حامیوں کی طرح اب اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے اقتدار کو ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے لیکن کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دینے والے کالم نگار اور اینکر پرسنز ایک ایک کرکے اپنے غلط اندازوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ہارون الرشید اور حسن نثار کے بعد اب آفتاب اقبال نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ غلط فہمی کا شکار تھے کہ کپتان تبدیلی لے کر آئے گا۔
اینکر پرسن آفتاب اقبال نے کہا ہے کہ تبدیلی فوراً نہیں آتی۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان حقیقی تبدیلی کی طرف گامزن ہیں لیکن ان کی سپیڈ بہت کم ہے۔ آفتاب اقبال کے بقول بہت سارے ایسے اہم فیصلے تھے جو عمران خان کو فوری کرنا چاہئے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ کوئی ایک بھی فیصلہ نہ کر پائے۔ ان کے خیال میں مسئلہ صرف کپتان کا نہیں، ان کی ٹیم بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آفتاب اقبال نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ممدوح وزیراعظم نے بار باریوٹرن لیتے ہوئے سمجھوتے پر سمجھوتا کیا جو ہر بار غلط ہی ثابت ہوا۔
اس سے قبل سینئر کالم نگار حسن نثار نے کہا تھا کہ میری پہلی غلطی یہ تھی کہ میں عمران کے حوالے سے توقعات کو بہت اوپر لے گیا تھا جبکہ دوسری غلطی میں نے یہ کی کہ پکا یقین کر لیا کہ عمران خان آگیا ہے تو اب پتہ نہیں کونسی توپ چل جائے گی۔ حسن نثار نے انتہائی ندامت کے ساتھ اعتراف کیا کہ مجھے اس حد تک نہیں جانا چائیے تھا۔ بہتر تھا کہ اگر میں عمران کو سپورٹ کرتا تو مناسب طریقے سے کرتا۔ مجھے ان کے دعووں پر اندھا دھند یقین نہیں کرنا چایئے تھا۔
حسن نثار سے پہلے کالم نویس اور تجزیہ کار ہارون الرشید بھی کپتان سے توبہ تائب ہوکر اپنے کانوں کو ہاتھ لگا چکے ہیں کہ انہوں نے عمران کو پاکستان کا ماؤزے تنگ اور مہاتیر محمد سمجھا تھا مگر کپتان نے پوری قوم کی طرح انہیں بھی شدید مایوس کیا۔ خیال رہے کہ ہارون الرشید نے عمران کو پاکستان کا نجات دہندہ ثابت کرنے کے لئے برسہابرس ان کے حق میں کالم لکھے یہاں تک کہ مسلم لیگ نون کے رہنما مشاہد اللہ خان نے ان کا نام کا ہی کپتان کا کالم نویس رکھ دیا تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت بننے کے چند مہینوں بعد ہی دیگر پاکستانیوں کی طرح ہارون الرشید کی بھی آنکھیں کھل گئیں کہ جس کو وہ گھوڑا سمجھ رہے تھے وہ تو خچر بھی ثابت نہ ہوا۔
دوسری طرف اپنی حکومت کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے معاملات بہتر بنانے کے بجائے وزیراعظم عمران خان متواتر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستانی میڈیا سے منسلک صحافی حضرات بکاؤ مال ہیں اور ان کی حکومت کو ایک ایجنڈے کے تحت ناکام حکومت ثابت کیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے ماضی میں عمران خان بارہا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کو اقتدار میں لانے میں پاکستانی میڈیا کا بنیادی کردار ادا کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button