کیا عثمان مرزا بھی ریمنڈ ڈیوس کی طرح صاف بچ نکلے گا؟
اسلام آباد ہراسانی کیس میں متاثرہ لڑکی کی جانب سے عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والے شرمناک واقعے کے ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار اور مقدمے کو مزید آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ عمران حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے جس نے اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ آئندہ کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔ سوشل میڈیا صارفین اس کیس کا امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے کیس سے موازنہ کر رہے ہیں جو دو معصوم پاکستانیوں کو قتل کرنے کے باوجود ریاستی ایجنسیوں کی مدد سے صاف بچ نکلا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اکثر غریب اور مڈل کلاس طبقہ ہی بااثر افراد کے ظلم کا شکار ہوتا ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن بالآخر مجرموں کی جانب سے دھمکیوں کے زیر اثر آ کر متائثرین اپنے کیسز واپس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ایسا ہی کچھ عثمان مرزا کیس میں بھی دیکھنے میں آیا، جب اس کے ہاتھوں ہراسانی کا نشانہ بننے والی متاثرہ لڑکی نے مجرموں کو شناخت کرنے کے بعد اچانک اپنے موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے تمام نامزد ملزموں کو بری الزمہ قرار دے دیا۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر پاکستانی عدالتی نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کے پچھلے سال جولائی میں اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں ایک جوڑے کو برہنہ کر کے، اس پر تشدد کرنے اور لڑی کو ہراساں کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اس کیس کو ٹیسٹ کے بنانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے فوری ایکشن بھی لیا گیا اور متعلقہ افسران نے متاثرین کو مکمل انصاف دلوانے کی یقین دہانی کروائی۔ وزیراعظم عمران خان نے تو اس مقدمے کی بذاتِ خود مانیٹرنگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب اس مقدمے میں ایک نیا موڑ آیا ہے جس نے سوشل میڈیا پر اکثر صارفین کو مایوس کر دیا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ 11 فروری کو متاثرہ لڑکی نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت دیگر ملزموں کو شناخت کرنے سے انکار کر دیا، عدالت میں لڑکی کی جانب سے ایک بیانِ حلفی جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا کہ اس مقدمے میں جو ملزم نامزد اور گرفتار ہیں یہ وہ لوگ نہیں جو ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں اور وقوعہ کے وقت موجود تھے۔نتاہم سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو اکثر صارفین متاثرہ لڑکی کے اس بیان کی سچائی پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس کی وجہ ملزموں کی جانب سے کی جانے والی بلیک میلنگ ہے، تاہم اس بارے میں ظاہر ہے کوئی ثبوت موجود نہیں، اکثر افراد کی جانب سے اس مقدمے کا موازنہ شارخ جتوئی کیس سے بھی کیا جا رہا ہے جو کراچی کے ایک نوجوان کو قتل کرنے کے بعد سزائے موت پانے کے باوجود بھی ایک اسپتال میں پچھلے سات ماہ سے عیاشی کی زندگی گزار رہا تھا۔
سوشل میڈیا پر احسن راشد نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ ایک عام مڈل کلاس فیملی کبھی بھی ایک طویل قانونی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتی، ایسے معاملات میں ریاست کو ہی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اکثر افراد نے متاثرہ لڑکی کی جانب سے کیس واپس لیے جانے پر پاکستان کے قانونی نظام پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے تو یہ تک کہا کہ اگر ایسے کیسوں میں واضح ترین ویڈیو ثبوت بھی ناکافی ہیں تو یہ اس نظام کی موت کا ثبوت ہے۔ جہاں کچھ صارفین کی جانب سے متاثرہ لڑکا اور لڑکی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہیں دیگر صارفین ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے معاشرے اور قانونی نظام کی خامیوں کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج کے باعث ہی اس حوالے سے پولیس کی جانب سے نوٹس لیا گیا تھا، اور ملزموں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، ایک صارف نے لکھا کہ اس معاملے میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں، ایسا عدالتوں میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے، عام طور پر متاثرین دھمکیوں اور دباو کے بعد عدالت سے باہر ہی معاملات کر لیتے ہیں اور اپنے بیانات سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اس طرح ملزمان بری ہو جاتے ہیں اور ان کو رہائی مل جاتی ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے وکلا سے سوال کیا کہ ہم سب نے وہ انتہائی اذیتناک ویڈیو دیکھی تھی، کیا ہم عدالت میں بطور گواہ اس حوالے سے اپیل کر سکتے ہیں یا ہمارے پاس اور کیا آپشن ہیں جس سے یہ یقینی بنایا جائے کہ عثمان مرزا جیسا با اثر شیطان جیل میں ہی رہے، مریم نامی ایک صارف نے لکھا کہ عثمان مرزا رہا ہونے والا ہے، اور یہ سوچ کر بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس کیس کا مرکزی ملزم عثمان مرزا ایک پراپرٹی ڈیلر ہے جو اکثر لڑکے اور لڑکی کو اکٹھے پکڑ کر ان کی عریق ویڈیو بناتا تھا اور پھر ان سے پیسے وصول کرتا تھا۔
ٹیپو نامی ایک صارف نے لکھا کہ اس شرمناک کیس کے متاثرین کو موردِ الزام ٹھہرانا اور انھیں شرمندہ کرنا بہت آسان ہے، عثمان مرزا کیس میں متاثرہ جوڑا طاقتور کے خلاف اپنی زندگیوں کی جنگ بھی لڑ رہا تھا، ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ جوڑا ملزموں کی نشاندہی کرے اعر۔مارا جائے؟ ریاست جوڑے کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتی؟ کچھ صارفین کی جانب سے اس مقدمے کا موازنہ ماضی کے مشہور شاہ زیب قتل کیس سے بھی کیا جا رہا ہے۔ کرن ناز نے اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’زینب زیادتی/قتل کیس کے علاوہ اس ملک میں واقعی مظلوم کے ساتھ انصاف کی کوئی مثال نہیں ملتی، عثمان مرزا کیس میں متاثرہ لڑکی کے تازہ بیان نے دل بہت دکھا دیا ہے، یہ شاید وہی خوف ہے جو بتاتا ہے کہ طاقتور جنسی درندوں کا اس ملک میں کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ایک صارف نے لکھا کہ ویڈیو میں صاف دکھائی دینے والے مجرم کو سزا نہ دے سکنے والی ریاست کو کس نے اندھا کر دیا جو کہ ماں کے جیسی ہوتی ہے؟ یہا جنگل کا قانون ہے۔ ایک صارف نے متاثرہ لڑکا اور لڑکی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انکی جان کی ضمانت کون دے گا؟ کیا آپ کو نہیں پتا کہ پاکستان میں صلح یا کیس واپس لینے کے لیے کتنا دباؤ ہوتا ہے؟ کیا آپ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوڈ کا کیس بھول گئے؟‘ جو دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے باوجود صاف بچ نکلا تھا اور اسے سزا سے بچانے میں ریاستی ادارے ملوث تھے۔