عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مائنس کیوں کر دی؟

بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ‘فچ’ نے پاکستان کی طویل المیعاد فارن کرنسی ایشیور ڈیفالٹ ریٹنگ ٹرپل سی پلس سے کم کرکے ٹرپل سی مائنس کردی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق ریٹنگ میں اس کمی سے پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے والوں اور بانڈز خریدنے والوں کا اعتماد متاثر ہوگا۔ لیکن پاکستان کو قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے یا ممالک پر ان ریٹنگز سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
فچ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی غیرملکی کرنسی میں طویل عرصے کا قرض لینے کی ریٹنگ گرادی گئی ہے۔ فچ کے مطابق ریٹنگ میں تنزلی زرِمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی کے سبب کی گئی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب عالمی ادارے نے پاکستان کی ریٹنگ کم کی ہے وہیں پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافہ کردیا گیا ہے جس کے بعد عام استعمال کی تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جی ایس ٹی بڑھانے سے مہنگائی تو ہوگی، لیکن اگر یہ سب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صورتِ حال اس سے کئی گنا زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔
کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ کے اعلامیے کے مطابق ”ہم سمجھتے ہیں کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف پروگرام کا نواں جائزہ کامیاب ہوگا۔ ڈیفالٹ یا قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ ایک حقیقی امکان ہے۔ لہٰذا نویں جائزے کی تکمیل آمدنی کے پیشگی اقدامات، ریگولیٹڈ ایندھن کی قیمتوں سے مشروط ہے۔”فچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کی سطح کم رہے گی اور مالی سال 2023 میں اس میں معمولی بہتری ممکن ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے کے بقایا ڈھائی ارب ڈالر کے علاوہ دیگر ذرائع سے ساڑھے تین ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔البتہ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق رقم کا ملنا آئی ایم ایف معاہدے کے ساتھ مشروط ہے جب کہ دوست ممالک پرانے قرضے رول اوور کے ساتھ مزید پانچ ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہیں۔فچ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چار ارب 70 کروڑ ڈالر رہے گا۔ مالی سال 2022 کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالر تھا۔ایجنسی کا مزید کہنا تھا کہ درآمدات کم کرنے اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا ہے۔ اس کے علاوہ شرح سود بڑھانے اور توانائی کا استعمال کم کرنے سے بھی اس میں کمی آئی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل میں مالیاتی اداروں کی ریٹنگز ہوتی کیا ہیں؟پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے ڈاکٹر جلیل احمد کہتے ہیں اگر کسی شخص کی جیب میں کچھ پیسے موجود ہوں اور وہ کسی سے قرض کی درخواست کرے تو اس کے پاس موجود پیسوں کی وجہ سے اسے قرض دینے والا مطمئن ہوگا کہ وہ قرض واپس کرسکتا ہے۔مگر ان کے بقول اگر کوئی شخص مفلوک الحال ہو اور اس کے پاس کوئی پیسہ موجود نہ ہو تو قرض دینے والا بھی مطمئن نہیں ہوگا۔ بالکل ایسا ہی عالمی معیشت میں ہوتا ہے کہ کسی ملک کے پاس موجود ذخائر کا اندازہ لگانےکے بعد عالمی مالیاتی ایجنسیاں اس ملک کی ریٹنگ جاری کرتی ہیں۔
پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت کم سطح پر ہیں اور ایسے میں ملک کی ریٹنگ ٹرپل سی منفی ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ڈاکٹر جلیل کے مطابق اس ریٹنگ پر کسی ملک کے سیاسی حالات یا کسی اور بات کا اثر نہیں ہوتا بلکہ یہ فیصلہ صرف ملک کے موجود ذخائر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت دو چار ارب ڈالر میں چل جاتی ہے۔ اس کا معیار یہ ہے ہمارے کمرشل بینکس کے پاس پانچ سے چھ ارب ڈالر ہیں جب کہ اسٹیٹ بینک کے پاس تین ارب ڈالر ہیں۔ اسی طرح ہمیں آئندہ کچھ عرصے میں سات ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ ایسے میں ریٹنگ کرنے والے ادارے پاکستان کی صلاحیت کے مطابق ریٹنگ دیتے ہیں کہ آیا ملک قرض واپس کر سکتا ہے یا نہیں۔
ان کے بقول موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے لیے یہ برے حالات ہیں۔ اگر پاکستان کے پاس 10 ارب ڈالر کے ذخائر ہوتے تو پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوتی۔ لیکن جب آپ کے پاس موجود ہی صرف دو تین ارب ڈالر ہوں تو ریٹنگ گر جانا یقینی بات ہے۔دوسری جانب پاکستان میں جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافے کے بعد عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔فرحان محمود کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی پہلے ہی 27 سے 28 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافے سے مہنگائی ضرور ہوگی۔ان کے بقول اگر یہ سب نہ کیا جاتا اور آئی ایم ایف کو مطمئن نہ کرتے تو حالات اس سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتے تھے۔ لہٰذا اس فیصلے سے فی الحال پاکستان کی معیشت بچ گئی ہے۔