آئینی ترمیم : کابینہ اجلاس مؤخر، بل آج بھی قومی اسمبلی میں پیش نہ کیے جانے کا امکان

آئینی ترمیمی بل آج بھی قومی اسمبلی میں پیش نہ کیے جانے کا امکان ہے، قومی اسمبلی کےمعمول کے 3 نکاتی ایجنڈے پر کارروائی ہوگی جب کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس آج شیڈول نہیں جس کے باعث کابینہ سے اس کی منظوری مزید تاخیر کا شکار ہوگئی۔

قومی اسمبلی و سینیٹ ارکان کو بتایاگیا ہےکہ آج کےاجلاس میں اس طرح کی کوئی چیز شیڈول میں شامل نہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ روز بھی مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترمیم سےمتعلق تیار نہیں تھےاور آج بھی یہی صورت حال ہے، تو جب تک جے یو آئی ف کےسربراہ سمیت دیگر اتحادیوں کو مطمئن نہیں کردیا جاتاتب تک کابینہ سےمنظوری بھی نہیں ہوگی اور قومی اسمبلی میں بھی بل پیش نہیں کیاجائے گا۔

خیال رہے کہ عدلیہ سےمتعلق آئینی ترامیم سے متعلق بل حکمران اتحاد کی بھرپور کوششوں کےباوجود اتوار کو بھی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکا، کیونکہ حکومت آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے درکار دوتہائی ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

آئینی ترمیم کےمعاملے پر گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹےالتوا کا شکار ہونے کےبعد 12 گھنٹے بعد شروع ہوا اور اسپیکر قومی اسمبلی نےاجلاس آج دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔قومی اسمبلی کااجلاس گزشتہ روز شام 4 بجے ہونا تھا تاہم بعد ازاں یہ تاخیر کا شکار ہوا اور پھر 4 گھنٹے بعد رات 8 بجے موخر کردیا تاہم 8 بجے بھی اجلاس شروع نہ نہ ہوسکا، رات 11 بجے کےبعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا لیکن چند منٹ تک جاری رہا۔

قبل ازیں وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونےوالا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہوسکا، کابینہ کا اجلاس دن 11 بجےطلب کیا گیاتھا تاہم پھر اسے 3 بجے تک موخر کردیا گیاتھا اور پھر شام 5 ہونا تھا جو نہ ہوسکا۔

طریقہ کار کےمطابق، آئینی ترمیم کو پہلے وفاقی کابینہ سےمنظوری دینی ہوگی، جس کےلیےکہاگیا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس آج شیڈول ہےاور اجلاس میں آئینی پیکج کی منظوری دینے کا امکان ظاہر کیاگیا تھا۔

دوسری جانب سینیٹ کااجلاس آج دوپہر ساڑھے 12 بجے ہوگا، سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کےلیے 6 نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا۔سینیٹ کے آج ہونےوالے کے اجلاس کے ایجنڈے میں بھی آئینی ترمیم شامل نہیں ہے، گزشتہ روز بغیر کسی کارروائی کےرات گئےاجلاس ملتوی کردیا گیاتھا۔

سینیٹ اجلاس میں پراپرٹیز مینجمنٹ ترمیمی بل 2024 ایجنڈے کاحصہ ہے، حکومتی ملکیتی اداروں کی مینجمنٹ اور گورننس سے متعلق ترمیمی بل ایجنڈے میں شامل ہیں۔دونوں بل سینیٹر انوشہ رحمٰن کی جانب سےایوان میں پیش کیے جائیں گے، 7 ستمبر 1974 کے تاریخی یادگار دن کےحوالے سے قرارداد ایجنڈے کاحصہ ہے جب کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد دینے کے اریخی دن کے حوالے سے قرارداد مولانا عطاء الرحمن پیش کریں گے۔

گزشتہ روز وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہاتھا کہ حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہےاور آئینی ترمیم ایک سنجیدہ معاملہ ہے تو جب تک وسیع تر سیاسی مشاورت مکمل نہیں ہو جاتی ہے تو اس پر آگے بڑھنے میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی ہے۔انہوں نےکہا کہ یہ آئینی ترمیم کامعاملہ ہے اور جب آئین پاکستان میں ترمیم کی جاتی ہے تو بہت سنجیدگی سے ایک ایک شق اور لفظ پرغور کیاجاتا ہے، باقاعدہ بحث مباحثہ بھی ہوتاہے اور قانونی ماہرین سےایک ایک نکتے پر رائے طلب کی جاتی ہے۔

یادرہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنےکی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیےجانے کا امکان ہے۔

تاہم آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئےبلاول بھٹو اور محسن نقوی نے مولانا فضل الرحمن سےطویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد کی ملاقات کے عد پی ٹی آئی وفد بھی پہنچ گیا تھا جس کی قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کی جبکہ وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، شبلی فراز اور صاحبزاہ حامد رضا شامل تھے۔

آئینی ترمیم کےلیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کےپاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔

قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سےحکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ ن کے 110، پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم کے 22 ارکان شامل ہیں۔اس کےعلاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کےساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام ف کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔

آئینی ترمیم کےلیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کےلیے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔

اعلیٰ ایوان کی اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔

آئینی ترامیم کا مسودہ دیکھ کر ہی جواب دیں گے : حافظ حمداللہ

Back to top button