آئینی ترمیم : نمبرز پورےہونے کے باوجود ہم نے مشاورتی عمل کو ترجیح دی ، عطا تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں، نمبرز پورے ہیں، آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کی کوششیں کررہے ہیں اور کوشش ہےکہ یہ مشاورت آج ہرحال میں مکمل ہوجائے۔
وفاقی وزیر نے عطا اللہ تارڑ کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس آج 7 بجے طلب کیا گیاہے۔ فی الوقت سیاسی مشاورت کا عمل جاری ہے۔ آئینی ترامیم پر مکمل اتفاق رائے پیدا کرنےکی کوشش کی گئی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کا مشاورت کے عمل میں حصہ لینا جمہوریت کاحسن ہے۔
وفاقی وزیر نےکہا کہ وزیر اعظم سے بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات ہوئی،بلاول بھٹو زرداری کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی،پی ٹی آئی کے وفد نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے بھی ملاقات کرلی ہے۔ نمبرز پورےہونے کے باوجود ہم نے مشاورتی عمل کو ترجیح دی ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ آئینی ترامیم پر ہمارا فرض ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیا جائے اور ایک ایک شق پر سیر حاصل گفتگو کر کے اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ مذاکرات کا عمل تیزی سے جاری ہے اور ہماری کوشش ہے کہ آج اسے ہرحال میں مکمل کرلیا جائے۔
وفاقی وزیر کاکہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا ہےکہ مکمل اتفاق رائے کےبعد اس معاملے کو آگے بڑھا جائے۔ہم جمہوری سوچ کے لوگ ہیں، ہماری کوشش ہے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہو۔ جمہوری معاشروں میں کوشش یہی ہوتی ہے کہ مشاورت اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں کردار ادا کیاجائے۔
آئینی ترمیم پر عمران خان سے مشاورت ہوگئی : بیرسٹر گوہر
انہوں نےکہا کہ خیبر پختونخوا کے اندر رولز تبدیل کرکے پولیس افسران کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے اختیارات آئی جی سے لےکر وزیراعلیٰ نے اپنے پاس رکھ لیے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ پولیس سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جائیں۔ یہ لوگوں کو سیاسی طور پر اپنے کنٹرول میں لینا چاہتےتھے۔ انہوں نے پنجاب سے بھی لوگوں کو بند کیا اور الزام اداروں پر لگایا۔انہوں نے وفاق کے خلاف سرکاری وسائل کا استعمال کیا۔ جب یہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں تو اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ ان کا اپنا طرز عمل کیا ہے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اِنہوں نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے غدداری پر جلاؤ، گھیراؤ اور گھر و کاروبار تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ ملک سے غداری پر انہیں کوئی ایشو نہیں۔ ہم کہتےہیں کہ سب سے پہلےہمارا ملک ہے، سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں بعد میں ہیں۔ اگر کسی رکن پارلیمنٹ پر حملے کیے تو ریاست ایکشن لے گی۔ ریاست کی عملداری ہر صورت قائم رہے گی۔الزام تراشی کی سیاست کرکے یہ سیاسی فیس سیونگ چاہتےہیں۔