کیا ایم کیو ایم پاکستان مزید زوال کی جانب گامزن ہے؟

الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد خالد مقبول صدیقی اور عامر خان نے اپنے ساتھیوں سے مل کر ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے نئی جماعت تو کھڑی کر لی لیکن کمزور تنظیمی ڈھانچے اور مسلسل اختلافات کی وجہ سے اسے سندھ کے شہری علاقوں میں عوامی قبولیت کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، پارٹی میں تازہ ترین اختلافات ایک مرتبہ پھر کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینئر کے عہدے پر بحال کرنے پر شروع ہوئے۔ تین ارکان اسمبلی سمیت سات ذمہ داران کے احتجاج پر کامران ٹیسوری سیمت دیگر شمولیت اختیار کرنے والے رہنماؤں کی تنظیم میں بحالی کا عمل وقتی طور پر روک دیا گیا ہے۔
اردو نیوز کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان میں اختلافات تب کھل کر سامنے آ گئے اور پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی جب وفاقی وزیر فیصل سبزواری، سابق مئیر کراچی وسیم اختر اور خواجہ اظہار الحسن نے کامران ٹیسوری اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ ایم کیو ایم کا حصہ بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔ دوسری جانب رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ، رکن صوبائی اسمبلی جاوید حنیف اور محمد حسین سمیت دیگر رہنما ٹیسوری اور ان کے ساتھیوں کی پارٹی میں واپسی پر پارٹی قیادت سے نالاں ہیں، کامران ٹیسوری اور دیگر افراد کی مخالفت ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ایک سینئر رکن نے گفتگو کرتے ہوئے کامران ٹیسوری اور دیگر کی پارٹی شمولیت کے لیے ہونے والے اجلاس کے حوالے سے بتایا کہ ’اس اجلاس میں صرف نو افراد شامل ہوئے اور انہوں نے کامران ٹیسوری کو ناصرف پارٹی میں واپس شامل کرنے کا فیصلہ لیا بلکہ انہیں ایک انتہائی اہم عہدے پر بھی فائز کیا جو کہ پارٹی کی پالیسی اور دستور کے خلاف ہے۔
کامران ٹیسوری کو جماعت میں واپس لے کر عہدہ دینے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم میں شمولیت اور تنظیم میں واپسی کا ایک طریقہ کار ہے، پارٹی کو نقصان پہنچانے والوں کو یوں ایک اجلاس میں ناصرف تنظیم میں شامل کیا گیا بلکہ اہم عہدہ بھی دیا گیا ہے، یہ خلاف ضابطہ ہے اور اس کی تنظیم میں شدید مخالفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شمولیت کے اعلان کے بعد سے عارضی مرکز بہادر آباد پر رابطہ کمیٹی کی کوئی بیٹھک نہیں ہوئی ہے۔ سابق میئر وسیم اختر، رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن، وفاقی وزیر فیصل سبزواری سمیت دوسرے دھڑے کا کوئی بھی رکن مرکز نہیں آیا ہے، انہوں نے بتایا کہ کامران ٹیسوری اور دیگر کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کا فیصلہ وقتی طور پر روک دیا گیا ہے، اس حوالے سے رواں ہفتے رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوگا جس میں ان رہنماؤں کی واپسی اور انہیں ذمہ داریاں دینے کے حوالے سے تفصیلی غور کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں پہلی بار اختلافات تب سامنے آئے تھے جب 2018 میں سابق سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو سینٹ کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت کے تنظیمی ذمہ داران اور رابطہ کمیٹی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فاروق ستار کو فیصلے پر نظرثانی کا کہا تھا اور یہ معاملہ اس حد بگڑ گیا تھا کہ فاروق ستار نے پارٹی سربراہی سمیت تنظیم سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ایم کیو ایم میں جاری کشمکش بارے کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مظہر عباس نے متحدہ قومی موومنٹ میں دھڑے بندی کی اطلاع کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایم کیو ایم کی صورت حال اس وقت بہت خراب ہے۔ ایم کیو ایم اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہے، متحدہ قومی موومنٹ کو کسی بھی سطح پر سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ایم کیو ایم میں تنازعات سامنے آئے ہیں۔ اس وقت کامران ٹیسوری سیمت دیگر کی متحدہ میں شمولیت پر اختلافات موجود ہیں۔
پارٹی کا کل ہونے والا اجلاس بھی نہیں ہوا ہے۔ اب صورتحال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے، اور ایم کیو ایم زوال کی جانب گامزن ہے۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم تنظیمی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ آنے والے بلدیاتی الیکشن میں بھی متحدہ کی پوزیشن مایوس کن رہنے کے امکانات ہیں۔ اس وقت بھی پارٹی میں تین سے چار گروہ موجود ہیں، دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان نے تنظیم میں اختلافات کی خبروں کی تردید کی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق نے کہا کہ ایم کیو ایم میں تقسیم کی بات درست نہیں ہے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، رابطہ کمیٹی میں موجود اراکین تنظیم سے متعلق فیصلوں پر غور فکر کرتے ہیں، اس میں حمایت اور مخالفت دنوں میں رائے سامنے آتی ہے، ایم کیو ایم ایک جمہوری جماعت ہے اور رابطہ کمیٹی کوئی بھی فیصلہ مشاورت کے بغیر نہیں کرتی۔