عوام کی بینڈ کپتان کی وجہ سے بج رہی ہے یا شہباز کی؟


شہباز شریف حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بد حالی کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال رہی ہے جبکہ سابق حکمران عمران خان سارا مدعا نئی حکومت پر ڈالنے میں مگن ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سیاسی سرکس کے دوران اس عام آدمی کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا جو اس ہوشربا مہنگائی کی چکّی میں بری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث مسلسل یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اسکی وجہ سابقہ عمران حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ کرنا ہے یا موجودہ شہباز حکومت کی بد انتظامی ہے؟ موجودہ حکومت کی جانب سے حالیہ عرصے پر پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں 60 روپے فی لیٹر کے حساب سے ہونے والے اضافے کے ساتھ یکم جولائی 2022 سے بجلی کے نرخوں میں آٹھ روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمت میں 45 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔

خراب معاشی صورتحال اور اس کی وجہ سے عوام کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات پر موجودہ اتحادی حکومت کے مابین الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جس میں ایک دوسرے کو ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے سابقہ حکومت پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عالمی ادارے نے ابھی تک پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری نہیں کی جس نے پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے کو سنگین مشکلات سے دوچار کر دیا اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے موجودہ حکومت پر صرف دو ماہ کی حکمرانی میں معیشت کو خراب کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عام فرد مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔موجودہ حکومت کی جانب سے سابقہ حکومت پر پٹرول، ڈیزل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے لیے بجٹ میں فنانسنگ نہ رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھ گیا اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اس خسارے کو نیچے لانا ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے پٹرول و ڈیزل اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھنے اور اس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام میں تعطل کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت نے سبسڈی دینے کے لیے مناسب فنانسنگ کا انتظام کر رکھا تھا۔پاکستان میں معاشی ماہرین موجودہ اور سابقہ حکومت کی جانب سے ایک دوسرے پر ملک کی اقتصادی صورتحال کو خراب کرنے پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کی پالیسیوں کے ساتھ ملک میں موجود غیر یقینی صورتحال معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھری، جس کا خمیازہ ایک عام فرد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت تواتر سے تحریک انصاف کی سابقہ حکومت پر آئی ایم ایف سے کیے جانے والے وعدوں سے انحراف کا الزام لگاتی ہے، جس میں حکومت کے مطابق سب سے بڑا عنصر پٹرول و ڈیزل پر سبسڈی دینا ہے جبکہ معاہدے کے مطابق وعدہ کیا گیا تھا کہ پٹرول و ڈیزل کی قیمت بڑھائی جائے گی۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہد کیا تھا اور جب معاہدہ کیا جاتا ہے تو اس کی پاسداری کرنا پڑتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب قرض لیا جاتا ہے تو پھر قرض دینے والے کی شرائط پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں چوائس نہیں ہوتی۔‘ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف جب قرض دیتا ہے تو وہ دوسرے عالمی اداروں اور ملکوں سے فنڈنگ کی راہ کھولتا ہے، جس میں نیا قرض بھی ہوتا ہے اور پرانے قرضوں کو رول اوور بھی کیا جاتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سابقہ حکومت کے معاہدے کو موجودہ حکومت کیوں جاری رکھنا چاہتی ہے تو انھوں نے کہا ’یہ ملک کا معاہدہ ہوتا ہے نہ کہ کسی جماعت کا نہ حکومت کا۔‘ انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے پاس کوئی چوائس نہیں کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام سے باہر نکلے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی جب پٹرولیم لیوی 30 روپے فی لیٹر اور 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کرائی گئی تھی، جس کا ثبوت بجٹ میں موجود ہے جس میں پٹرولیم لیوی کی مد میں پیسے اکٹھے کرنے کا کہا گیا ہے۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ چند ہفتوں کی حکومت کو موجودہ خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جس کا مطلب ہے کہ سابقہ حکومت کی معاشی پالیسی نے حالات کو اس سطح پر پہنچایا۔ انھوں نے کہ بد قسمتی سے سبسڈی دینے کا سابقہ حکومت کا فیصلہ بھی سیاسی تھا اور موجودہ کی طرف سے کئی ہفتوں تک اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی معاشی سے زیادہ سیاسی تھا، جس کے تباہ کن نتائج ملک کی پوری معیشت پر پڑے ہیں۔

Back to top button