اسلام آباد احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کا نیا بیانیہ بھی وڑھ گیا

اسلام اباد میں عمران خان کی فائنل احتجاجی کال کی ناکامی سے تحریک انصاف کو کسی فائدے کی بجائے شدید سیاسی اٹھانا پڑا ہے اور اب یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں احتجاج کی کوئی بھی کال کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ یاد رہے کہ عمران خان نے فائنل احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے اپنی رہائی اور آئینی ترامیم کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن جب مشکل وقت آیا تو پی ٹی ائی کی قیادت بشری بی بی سمیت جھوٹیاں اٹھا کر اسلام اباد سے فرار ہو گئی۔

اسلام اباد میں احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے 278 مظاہرین کی ہلاکت کا جھوٹا الزام عائد کیے جانے کے بعد وفاقی حکومت نے آئندہ اسلام آباد میں احتجاج کو روکنے اور فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سخت ترین کاروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی کے اسلام آباد احتجاج کو ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے، لیکن احتجاج کے دوران حکومتی کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں کے الزامات پر حکومتی رہنماؤں اور پی ٹی آئی کی جانب سے بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے کریک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا، تاہم پارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق کریک ڈاؤن میں 12 پی ٹی آئی کارکن ہلاک ہوئے۔ حکومت کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے۔

ان الزام تراشیوں کے دوران حکومت نے منفی پروپیگنڈے کی روک تھام کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ اسلام آباد میں دوبارہ احتجاج کا راستہ روکنے کے لیے حکمتِ عملی بھی زیرِ غور ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اسلام آباد میں دوبارہ احتجاج کا خدشہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت سائبر کرائم ترمیمی بل اور پیکا ایکٹ میں تبدیلی پر بھی غور کر رہی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق سائبر کرائم ترمیمی بل کے دستیاب ابتدائی مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز ہے۔

ابتدائی مسودے کے مطابق فیک نیوز دینے والے کو پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکے گی۔ اِسی طرح اتھارٹی کو سوشل میڈیا سے مواد بلاک کرنے یا ہٹانے سمیت حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور دیگر مواد ہٹانے کا اختیار ہو گا۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے چئیرمین بیرسٹر علی گوہر نے پیر کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کے بعد مؤقف اپنایا ہے کہ جو لوگ ڈی چوک احتجاج میں سینکڑوں ہلاکتوں کی باتیں کر رہے ہیں جماعت ان سے اعلانِ لاتعلقی کرتی ہے۔ اُن کے بقول پی تی آئی کے حالیہ احتجاج میں 12 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام اباد احتجاج سے تحریک انصاف کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے۔ سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ 26 نومبر کے احتجاج کا حکومت اور پی ٹی آئی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس سارے معاملے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتیں آپس میں اُلجھ کر اپنا کردار خود ہی محدود کر رہی ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بڑے فیصلوں میں حکومت، اپوزیشن اور پارلیمنٹ کا کردار نظر نہیں آ رہا۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگر ایک صوبے کی حکومت اسی طرح وفاق پر حملہ آور ہوتی رہی تو وفاقی حکومت کو بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت اِس سلسلے میں کیا، کتنے اور کیسے اقدامات کرتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ احمد بلال محبوب کی رائے میں پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج پر جماعت کی قیادت کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر باتیں کر رہی تھی۔ اِس کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں پر مسلسل اور کافی عرصے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا تھا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس مرتبہ جماعت کی قیادت کو حقائق کو چیک کر کے اپنا نقطہ نظر دینا چاہیے تھا۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ فریقین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ احتجاج میں ہونے والی ہلاکتیں ہزاروں سے سینکڑوں اور اب 12 پر آ کر رک گئی ہیں۔ اِسی طرح یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کیا بات کہی تھی؟ بشرٰی بی بی اور گنڈا پور کے درمیان کیا معاملہ تھا؟ بانی جماعت کی ہدایات کیا تھیں اور کتنا عمل ہوا؟ یہ سارا تذبذب موجود ہے۔ شامی کہتے ہیں کہ اسی طرح حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد نہیں آئیں گے۔ لیکن بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے اور ڈی چوک تک بھی پہنچ گئے۔

اس معاملے پر سینیئر صحافی سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ احتجاج اور ہلاکتوں سے متعلق پھیلائی جانے والی فیک نیوز نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ سخت اقدامات کرے اور ذمے داروں کا تعین کرتے ہوئے اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ جو کچھ کہتی رہی ہے، اس کے وہ شواہد مہیا کرے اور حکومت بھی ثبوت سامنے لائے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف اپنی حکمتِ عملی پر از سرِ نو غور کرے اور احتجاجی سیاست کے بجائے جمہوری اور پارلیمانی جدوجہد کا راستہ اختیار کرے۔ انکا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں کوئی چھاپہ مار تنظیمیں نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے کارکنوں کی اِس طرح سے توانائیاں ضائع کریں۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اپنے کارکنوں کو انتخابات تک لے کر جائیں اور وہاں اپنے جوہر آزمائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح عمران خان اپنی سیاست کر رہے ہیں، اُس سے اُن کا راستہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پارلیمان کے اندر زیادہ سے زیادہ متحرک ہو اور وہاں اپنا پوری طرح اپنا کردار ادا کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس ایوان میں اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر وہ پارلیمنٹ کی سرگرمیوں میں متحرک ہو تو وہ وہاں اثر انداز ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ ہے وہ باقاعدہ قواعد کے مطابق ایوان کے اندر اپنا مؤقف رکھ سکتے ہیں۔
اُن کے بقول پی ٹی آئی کو اپنی سیاست صرف عمران خان سے منسلک کرنے کے بجائے عوام سے جڑنا ہو گا اور مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر تحریکِ انصاف اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی چھوڑ کر عوامی مسائل کی سیاست کرے تو اسے فائدہ ہو گا۔

Back to top button