اسٹیبلشمنٹ اپنی لا متناہی طاقت کے بوجھ تلے دبنے کو ہے؟
سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ الله خان نیازی نے کہا ہے کہ پچھلے 35 سال میں جو بھی سیاسی حکومتیں وجود میں آئیں ان میں کچھ تو درمیانی آئینی اور کچھ کمتر آئینی تھیں مگر نوبت اب ابتر آئینی حکومت تک آ پہنچی ہے۔ اس سارےعرصہ میں پارلیمان اور عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کے سامنےسربسجود رہیں۔ مگر اسٹیبلشمنٹ آج اپنی ہی لا متناہی طاقت کے بوجھ تلے دبنے کو ہے. پچھلی ایک دہائی کی خصوصی محنت کے بعد آج مملکت جس آئینی بحران سے دوچار ہے،۔ PTI سمیت تمام سیاسی جماعتیں ، فوج اور عدلیہ سب باجماعت بھی کوشش کریں تو بھی حالات بہتر ہونے کی امید بہت کم ہے ، اپنے ایک کالم میں حفیظ الله خان نیازی کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک خصوصاً چین، بھارت اور خلیجی ممالک کرپشن میں ایک نام کما چکے تھے، ہم ان کا عشر عشیر بھی نہیں تھے۔ اس کے باوجود چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بنا، بھارت تیسری جبکہ خلیجی ممالک کسی طور پیچھے نہیں۔ ان ممالک کا کرپشن اسلئے کچھ نہ بگاڑ سکی کہ مستحکم سیاسی نظام ان میں مشترک قدر ہے ۔ پچھلے 71 سال سے پاکستان میں اکھاڑ پچھاڑ کا پرانا آزمودہ فارمولا ایک ہی رہا کہ سیاسی حکومت نااہل، کرپٹ اور سیکورٹی رسک ہے ” اسکو ہٹانا فرض اولین بنا۔ ناپ تول کے سازشی نظام پر یہ پیمانہ ہمیشہ پورا اترا۔ جس نظریہ پر مملکت وجود میں آئی پہلی فرصت میں اس نظریہ کو دفنایا لہذا ربط ملت کا ساتھ ہی بیڑا غرق ہونا بنتا تھا….. ۔ افراد کا ہجوم بچ گیا ، قومی وحدت بے معنی ہو گئی۔ خواجہ ناظم الدین سے لیکر عمران خان تک، جتنے منتخب وزراء اعظم رہے سب پر الزام ایک ہی لگا کہ یہ ، ’’نااہل، کرپٹ، سیکورٹی خطرہ‘‘ ہیں. حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ دھتکارے گئے ایسے وزرائے اعظم چند سال بعد دوبارہ مسند اقتدار کے مستحق قرار پائے۔ 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان کی شہادت سے آج دسمبر 2023ء تک مملکت دھینگا مشتی کا اکھاڑا بنی ہوئی ہے۔ انواع واقسام کے سیاسی نظام آزمائے گئے ،اور مملکت پر کئی بارجان کنی کا عالم آیا تاہم اپنی سخت جانی ہی کی وجہ سے بچ نکلیؒ۔ حیف! پچھلے76سال میں فقط 36 سال آئینی یا قانونی رہے۔ ہماری آئینی تاریخ تو مضروب ہی ہے ، 23مارچ 1956 میں پہلی دفعہ آئین بنا تو 7 اکتوبر 1958ءکو جنرل ایوب خان کے بوٹوں کی نذر ہو گیا۔ پاکستان کا سب سے بڑا قومی مجرم جنرل ایوب خان ہی تو ہے اس کے چار جرائم ناقابل معافی ہیں پہلا یہ کہ ایوب خان 1951 تا 27 اکتوبر 1958 ءتک ہر سازش کا حصہ یا سرغنہ رہا، عسکری قیادت کو شیر پر ایسا سوارکرا گیا کہ 70سال بعد آج شیر کی کمر سے اترنا ناممکن ہے کیونکہ ، اب اترنا کمزوری اورخطرہ جان ہے۔ دوسر جرم یہ کیا کہ سیاسی نظام کو پٹڑی سے ایسا اتارا کہ سیاسی استحکام عسکری قیادت کے وارے میں ہی نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ تاحیات عسکری قیادت کوئی اپنی پہلی ترجیح بنایا، تب سے آنیوالا ہر آرمی چیف خود کو تاحیات نہیں تو ایک آدھ توسیع اپنا استحقاق سمجھتا ہے ایوب نے چوتھا جرم یہ کیا کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کو ایسا طاقتور بنایا کہ کئی مطلق العنان لافانی طاقت کے دعویدار بن گئے، یعنی حکومت دینے، چھیننے والے، زندگی و موت پر دسترس رکھنے والے غرضیکہ ماضی میں خدائی صفات اپنا ئے رکھیں۔ اسٹیبلشمنٹ آج لا متناہی طاقت کے بوجھ تلے دبنے کو ہے۔
حفیظ الله خان نیازی کہتے ہیں کہ سیاستدانوں نے 14اگست 1947ءکو وجود میں آنیوالی مملکت کو 12 مارچ 1949 ءکو آئین مملکت کے رہنما اصول اور خدوحال دیئے، پارلیمان میں قراردادِ مقاصد منظور کروانے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔ 1951 میں لیاقت علی خان کے آخری مہینوں میں قراردادِ مقاصدایک رسمی دستاویزی شکل اختیار کرنے کو تھی مگر لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا ، انکی شہادت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی جس کی ایک وجہ شاید یہ قرار داد مقاصد پر آئینی پیش رفت تھی۔ اکتوبر 1951میں خواجہ ناظم الدین کے وزیراعظم بنتے ہی اسٹیبلشمنٹ نے کھل کھیلنے کی ٹھانی۔ ڈیڑھ سال بعد ہی 1953ءمیں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔ محمد علی بوگرا کو بطور وزیر اعظم چنا گیا مگر ، جیسے ہی بوگرا نے آئین کا ڈھانچہ یعنی بوگرا فارمولا دیا، جرائم پیشہ جتھے نے رعونت سے بوگرا کو چلتا کیا اور بوگرا فارمولا بھی ساتھ ہی چلتا بنا۔ چوہدری محمد علی نے 23مارچ 1956ء کو دستور دیا تو اسکی چھٹی کرا دی۔ بالآخر ملک کو یکجا رکھنے والی دستاویز، 1956ء کا آئین بھی منسوخ کر دیا اس منسوخی نے قومی وحدت پر خط تنسیخ پھیر دیا۔ 16دسمبر 1971ءکا سانحہ مشرقی پاکستان 7اکتوبر 1958ء کا کفارہ تھا۔ کیسی بد قسمتی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیساتھ اللہ تعالیٰ نے ذلت اور ہزیمت کا اضافی بوجھ بھی ہمارا مقدر بنا دیا۔ حفیظ الله نیازی کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کی مرہون منت 1973ء میں دوسرا آئین وجود میں آیا مگر بدقسمتی سے اسی آئین کو 1977اور 1999ءمیں دن دہاڑے اور کئی دفعہ رات کے اندھیرے میں بوٹوں نے روندے رکھا۔ اگرچہ 1988ء تا 2023ء جتنی حکومتیں وجود میں آئیں ، تمام اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے آئیں مگر اسکی پھر بھی تالیفِ قلب نہ ہوئی۔ بے کیفی، بے اطمینانی نے جان نہ چھوڑی اور اس نے کسی کو مدت پوری نہ کرنے دی۔ آج آئین پھر متزلزل ہے اور آئین کے نفاذ کو یقینی بنانے والی عدالتیں متاثر ہیں۔