افغانستان: اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ کے درمیان ’شراکت اقتدار‘ کا معاہدہ طے

افغانستان میں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبد اللہ کےمابین اقتدار میں اشتراک کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔
اشرف غنی کے ترجمان نے ٹوئٹر پر کہا کہ عبداللہ عبداللہ امن مذاکرات کے لیے کونسل کی سربراہی کریں گے اور ان کی ٹیم کے ارکان کابینہ میں بھی شامل ہوں گے۔ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ مزید تفصیلات جلد پیش کی جائیں گی۔
The Political Agreement between President Ghani and Dr. Abdullah Abdullah has just been signed. Dr. Abdullah will lead the National Reconciliation High Council and members of his team will be included in the cabinet. Details will be aired shortly by RTA. pic.twitter.com/VZ95m5DfJq
— Sediq Sediqqi 🇦🇫 (@SediqSediqqi) May 17, 2020
دونوں حریفوں نے اقتدار میں اشتراک سے متعلق ایک نئے معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان کو سیاسی بحران سے نکالنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس معاہدے میں عبداللہ عبداللہ طالبان کے ساتھ مستقبل میں امن مذاکرات کی قیادت کرسکیں گے۔
خیال رہے کہ 29 فروری کو قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔مذکورہ مذاکرات میں افغان حکومت کو بطور فریق شامل نہیں کیا گیا لیکن اشرف غنی نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے کے حوالے سے کہا تھا کہ تمام فریقین اس معاہدے کی پاسداری کریں گی۔حالیہ پیش رفت سے متعلق رواں ماہ کے آغاز میں عبداللہ عبداللہ نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا تھا کہ ’ہم نے مذاکرات میں پیش رفت کی ہے اور متعدد اصولوں پر ایک عارضی معاہدے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کا کام جاری ہے‘۔
اس سے قبل اشرف غنی کے ساتھ ہوئے اقتدار کے ایک معاہدے کے تحت عبداللہ عبداللہ افغانستان کے ’چیف ایگزیکٹو‘ رہ چکے ہیں لیکن گزشتہ برس ہوئے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں وہ اس عہدے سے محروم ہوگئے تھے۔انتخابات میں شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے عبداللہ نے اپنے آپ کو صدر قرار دے دیا تھا لیکن بین الاقوامی برادری صرف اشرف غنی کو صدر مانتی ہے۔تنازع کے باعث افغانستان میں ایک ایسے وقت کے دوران شدید خلفشار دیکھنے میں آیا کہ جب کورونا وائرس نے روز مرہ زندگی کو مشکل بنادیا ہے اور طالبان، امریکا کے ساتھ امن معاہدے کے باوجود حملے کررہے ہیں۔ٹوئٹر پیغام میں عبداللہ عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں سیاسی معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کی امید ہے تاکہ ہم تمام تر توجہ کووِڈ 19 پر قابو پانے کے لیے صرف کریں، ایک باعزت اور پائیدار امن کو یقینی بنائیں اور قومی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ معاشی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا کریں‘۔
ایک افغان عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے سامنے ایک کثیر الجہت تجویز پیش کی ہے۔اس پیشکش کے تحت انہیں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کی سربراہی اور ساتھیوں کو اعلیٰ سرکاری عہدے دینے کے ساتھ حکومت میں 50 فیصد حصہ چاہیے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس تجویز میں عبداللہ عبداللہ کو ’ایگزیکٹو وزیراعظم‘ کا عہدہ دینا بھی شامل ہے لیکن اشرف غنی نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا۔
ادھر امریکی نگرانی کے ادارے کا کہنا تھا کہ افغانستان کو کورونا وائرس کی تباہی کا سامنا ہے۔افغانستان میں کورونا وائرس کے 6 ہزار 664 کیسز رپورٹ جبکہ وائرس سے 169 اموات ہوچکی ہیں۔اس ضمن میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 778 افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’افغانستان کے متعدد اور بعض صورتوں میں منفرد خطرات، کمزور نظامِ صحت، بڑے پیمانے پر غذائی قلت، غیر محفوظ سرحدیں، بڑے پیمانے پر اندرونی نقل مکانی، ایران کے ساتھ ہم آہنگی اور جاری تنازعات نے اس بات کا امکان پیدا کردیا ہے کہ آئندہ آنے والے مہینوں میں ملک کو صحت کی تباہی کا سامنا ہوگا‘۔خیال رہے کہ افغانستان میں ستمبر 2019 میں ہونے والے متنازع انتخاب کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان قیادت کے طور پر منتخب ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جبکہ الیکشن کمیشن نے اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کردیا تھا۔عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ وہ اور ان کے اتحادی انتخاب جیتے ہیں اور اصرار کیا کہ حکومت وہ ہی بنائیں گے۔اس سلسلے میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے حلف برداری کے دعوت نامے تقسیم کر دیے تھے۔9 مارچ کو اشرف غنی نے تنازع کے باوجود دوسری مرتبہ صدارت کا حلف اٹھا تھا اور اسی دن عبداللہ عبداللہ نے بھی متوازی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔افغانستان میں امریکی نمائندے خصوصی زلمے خلیل زاد نے دونوں رہنماؤں کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جو ناکام ہوئی تھی۔