افغانیوں کی ملک بدری، پاکستان کیلئے سیکیورٹی چیلنج کیوں؟

ملک میں ہونے والی شرپسندانہ کارروائیوں میں افغانیوں کے شامل ہونے کے مصدقہ ثبوت سامنے آنے کے بعد پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کی مہم ایک بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ افغان مہاجرین کو ڈی پورٹ کرنے کے نتیجے میں افغان طالبان پاکستان کے خلاف عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر سکتے ہیں اور بھارت بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان کی ملک بدری کی اس مہم کی وجہ سےافغان طالبان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ افغان حکومت نے پاکستانی حکام سے افغانیوں کی ملک بدری میں رعایت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔اس حوالے سےافغانستان کے موجودہ حکومتی سربراہ ملا محمد حسن آخوند نے ایک بیان میں کہا، “پاکستانی حکمرانوں، موجودہ عبوری حکومت اور فوجی جرنیلوں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرنا چاہیے، مستقبل کو ترجیح دینی چاہیے اور افغان مہاجرین سے بدسلوکی اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔”
خیال رہے کہ پاکستان اورافغان طالبان کے درمیان پیچیدہ اور کشیدہ نوعیت کے تعلقات محظ اس قسم کے سفارتی بیانات تک محدود نہیں ہیں۔سن 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں متعدد عسکریت پسند تنظیموں نے تحریک طالبان پاکستان نامی ایک گروپ تشکیل کیا تھا، جو دراصل افغان طالبان کی ایک شاخ تھی۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے اپنی تشکیل کہ بعد یہ اعلان کیا تھا کہ چونکہ پاکستانی حکومت نے 2001ء میں شروع ہونے والی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا، اس لیے پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا جائز ہے۔ تب سے ٹی ٹی پی پاکستان میں سینکڑوں حملے کر چکی ہے۔ان میں 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے، جس کے بعد پاکستان حکام اور افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ نتیجتاﹰ پاکستان میں مقیم زیادہ تر عسکریت پسند افغانستان منتقل ہوگئے تھے، جہاں سے انہوں نے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ سن 2021ء میں افغان طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہاں ایک شدید اقتصادی بحران بھی پیدا ہوگیا ہے اور لاکھوں لوگ کو زندہ رہنے کے لیے امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔اس تناظر میں پشاور میں مقیم تجزیہ کار ڈاکٹر فیض اللہ جان کا ماننا ہے کہ ایسے وقت میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی افغانستان واپسی سے افغان حکومت کے لیے ان مسائل سے نمٹنا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔اس سے افغانوں میں پاکستان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ ہوگا اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر افغان حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ سخت رویہ بھی اختیار کرنے پر بھی مجبور ہو سکتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر نورین نصیر کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ان حالات میں افغان حکومت پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔ افغان طالبان پر پہلے ہی ٹی ٹی پی کی خفیہ طور پر حمایت کرنے کا الزام ہے، اور مہاجرین کی ملک بدری اور اس کے باعث پاکستانی حکام کے خلاف پائے جانے والے غم و غصے کی وجہ سے افغانی حکام اپنے ان نظریاتی اتحادیوں کے ساتھ اب کھلے عام معاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کہے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
ملکی بدری کی مہم کے بارے میں اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے اگر افغان طالبان کی نظر سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ان پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر زور ڈالنا ہے۔تاہم اب یہ خدشہ بھی ہے کہ افغان طالبان کے ماتحت سپاہی ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کیے جانے والے حملوں میں معاونت کریں، جس سے پاکستان سے کے لیے سکیورٹی کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔اور چونکہ کچھ افغان بلوچستان کے چند علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں، اس وقت کچھ حلقوں میں یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ پاکستان میں کشیدگی اس صوبے میں شورش میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارت بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔”کسی بھی تنازعے کی صورت میں پاکستان کو مشرقی محاذ پر بھارت اور مغربی محاذ پر ایک اور مخالف حکومت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔”
