افغان طالبان قبضہ کرتے ہوئے پاکستانی سرحد تک پہنچ گئے
افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان کی جانب سے مختلف علاقوں پر قبضے کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ طالبان نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع افغان فوجی چیک پوسٹوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
آے دن ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ انھوں نے ملک کے مختلف علاقوں اور چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے جسکے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی انور زیب خان نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے صوبہ کنڑ اور قندھار سے جڑی پاکستانی سرحد پر واقع افغان فوج کی چیک پوسٹوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ان واقعات کے بعد سابق باجوڑ ایجنسی اور بلوچستان کے ضلع چمن سے ملحقہ علاقوں کے باسیوں میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے۔ طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی ویڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح افراد کسی پہاڑی علاقے میں موجود ہیں جہاں ارد گرد خار دار تاریں اور باڑ لگی ہوئی ہے۔ ویڈیو میں بات کرنے والا شخص دعوی کرتا ہے کہ وہ اس وقت افغان حکومت کی سرحدی پوسٹ میں موجود ہیں اور وہ افغان فوجیوں کو مار بھگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر زکوۃ و عشر اور باجوڑ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی انور زیب خان نے کہا کہ اس واقعے کا باجوڑ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انکا کہنا تھا کہ ہماری فورسز اور سکیورٹی ادارے الرٹ ہیں۔ وہ سرحد پر اپنے فرائض ادا کررہے ہیں اور اس کے علاوہ سرحد پر باڑ بھی لگائی جا چکی ہے اور ہمارے ادارے الرٹ ہیں۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی سید اخوندزادہ چٹان کے مطابق افغان طالبان کی بڑی تعداد نے صوبہ کنڑ ہیڈ کوارٹر خار سے تقریبا تیس کلو میٹر دور غاخی پاس بارڈر پر حملہ کر کے وہاں موجود افغان فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سابق ایم این اے کے مطابق شہری اس وقت خوف کے عالم میں ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں وہ دن واپس تو نہیں آنے لگے جب انھیں اپنے حجروں، گھروں، کھیتوں، باغات اور سکولوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ‘ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس دفعہ بھی ایسا ہوا تو شاید یہ پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔’ سابق ایم این اے کا کہنا تھا کہ اب جبکہ افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ منسلک سرحدی علاقوں کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے، تو اگر پاکستان اپنی پالیسی ٹھیک نہیں کرے گا تو یہاں حالات خراب ہونے کا خدشہ رہے گا۔ باجوڑ میں افغانستان کی سرحد کے قریب کے علاقے میں موجود ایک شہری کے مطابق انھیں خدشہ ہے کہ کہیں وہ ویسی صورتحال کا شکار نہ ہوجائیں جس کا 1990 کی دہائی میں انھیں سامنا کرنا پڑا۔ ‘اُس وقت باجوڑ کے ہر گھر میں بم کا گولہ گرا تھا۔ ہر گھر دھشت گردی سے متاثر ہوا تھا۔ لوگ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تھے۔’
سابق لیفٹینٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق لگتا ہے کہ افغان طالبان منصوبہ بندی کے تحت افغانستان کے ساتھ موجود سرحدی علاقوں پر قبضے کرتے جارہے ہیں۔ پہلے انھوں نے شمال میں تاجکستان کے ساتھ موجود سرحدی علاقوں اور چوکیاں پر قبضہ کیا اور اب وہ جنوب کی طرف آرہے ہیں۔ کنڑ اور قندھار کے سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ مجھے یہ خدشہ بھی ہے کہ وہ لنڈی کوتل میں طورخم بارڈر پر بھی اپنا دباؤ بڑھائیں گے۔ جس کے لیے وہ منصوبہ بندی کررہے ہوں گے۔ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ بظاہر محسوس ہورہا ہے کہ افغان طالبان یہ سب کچھ اپنی انتہائی دیرپا منصوبہ بندی کے تحت کررہے ہیں۔ ‘ہوسکتا ہے کہ وہ کابل کی طرف بڑھنے سے پہلے تمام سرحدی علاقے اپنے قبضے میں کر کے کابل کی موجودہ حکومت کو اپنی مرضی کی شرائط پر مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہوں یا ان کی تمام مدد، کمک اور فرار کے راستے بند کرنا چاہتے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ سرحدی علاقوں اور کابل سے دور دراز علاقوں میں موجود چوکیوں کی حفاظت پر مامور افغان فوجی طالبان کا زیادہ مقابلہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ چوکیوں پر تعنیات فوجیوں کی تعداد چند ہی ہوتی ہے۔ ‘ان فوجیوں کو زمینی کمک اور فضائی کمک کی دستیابی میں مسائل ہیں جبکہ افغان طالبان بڑی تعداد میں اکھٹے ہو کر حملے کرکے یہ چوکیاں اپنے قبضے میں کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ باجوڑ کا علاقہ ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اور 1960 کے شروع میں پاکستانی اور افغان فوج کے مابین علاقے کے قبضے پر جھڑپ ہوئی تھی تاہم افغان فوج کو شکست ہوئی اور اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں تعطل آیا تھا۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد سے باجوڑ میں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور امریکہ کی جانب سے علاقے میں متعدد بار ڈرون حملے کیے گئے جس میں سب سے بڑا واقعہ 2006 جنوری کا تھا جب باجوڑ میں افغان سرحد سے متصل گاؤں ڈاماڈولہ میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے ڈرون حملہ کیا گیا جس میں 18 شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جنوری 2006 میں افغان سرحد سے متصل گاؤں ڈاماڈولہ میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے ڈرون حملہ کیا گیا جس میں 18 شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی حملے کے بعد امریکہ اور پاکستانی حکام کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ یہ القاعدہ میں اسامہ بن لادن کے بعد دوسرے سب سے اعلی رہنما ایمن الزہراوی کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ملک کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں جاری ہیں اور دونوں فریقین کی جانب سے اپنے اپنے موقف اور کامیابیوں کے دعوے بھی سامنے آئے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے ملک کے اندر مختلف صوبوں میں ایک سو سے زیادہ شہروں کا کنڑول حاصل کرنے کا دعوی ہے تو دوسری جانب افغان حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پہلے سے طالبان کے لوگ موجود تھے اور جو علاقے افغان حکومت نے چھوڑے ہیں وہ حکمت عملی کے تحت خالی کیے گے ہیں۔