الیکشن میں پی ٹی آئی اور ’بلا‘ مائنس ہونے کا امکان؟

سیاسی حلقوں میں آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف اور بلے کے نشان کی موجودگی یا مائنس ہونے کے حوالے سے بحث ایک بار پھر زوروشور سے جاری ہے۔ حالیہ بحث کا آغاز نگران وزیر اعظم انوارالحق کے ایک بیان سے ہوا،امریکا میں ایک انٹرویو کے دوران نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات عمران خان کے بغیر بھی شفاف اور منصفانہ انتخابات ممکن ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔نگراں وزیر اعظم کے مؤقف پر ردعمل دیتے ہوئے تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی یا پارٹی کے بغیر عام انتخابات غیر آئینی ہوں گے اور انہیں قبول نہیں کیا جائے گا اور اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف سانحہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور اس کے اکثر قیادت یا تو پابند سلاسل ہے یا روپوشی کی زندگی گزار رہی ہے۔ تو کیا ان حالات میں آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی اور بلے کا نشان ہوگا یا نہیں؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے کہ ابھی تک تو پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی۔’جب تک قانون کے مطابق پی ٹی آئی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی اس وقت تک پی ٹی آئی کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ عام انتخابات میں حصہ لے اور پی ٹی آئی کے اس حق کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ آج کی صورتحال کے مطابق پی ٹی ائی کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے اور اس کے بغیر الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکے گا۔‘
مجیب الرحمن شامی کے مطابق فیصل واوڈا نے صرف پیش گوئی کی ہے کہ پی ٹی آئی یا بلے کا نشان آئندہ عام انتخابات میں نہیں ہوگا لیکن نگراں وزیر اعظم نے جو بات کی ہے وہ کسی اور پیرائے میں ہے نگراں وزیر اعظم نے صرف یہ کہا ہے کہ اگر کوئی ایسا فیصلہ آ جائے جس سے عمران خان نااہل ہو جائیں یا الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں تو ان کے بغیر بھی انتخابات ہو جائیں گے۔
’ماضی قریب 2018 میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کے بغیر بھی انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نون نے حصہ بھی لیا تھا۔ اگر عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف کسی قانونی کارروائی میں عدالتی فیصلہ آتا ہے جس سے ان کو عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکتا ہے تو پھر پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات ممکن ہوسکیں گے، سیاسی عمل تو آگے بڑھے گا اور اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘
دوسری طرف سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق 9 مئی کے پرتشدد واقعات نے عمران خان کو پاکستانی سیاست سے دور کر دیا ہے، تاہم وہ کتنا عرصہ ملکی سیاست سے باہر ہوئے ہیں، اس بات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔’عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہو چکی ہے جبکہ سائفر کیس ابھی زیر سماعت ہے، وزیراعظم نے جو بات کی ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے بغیر بھی الیکشن ہو سکتے ہیں میرے خیال میں یہ بیان نہیں بلکہ پیغام ہے کہ عمران خان اور 9 مئی واقعات میں ملوث افراد کے بغیر الیکشن ہوں گے۔‘انصار عباسی سمجھتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات سے عیاں ہوتا گیا کہ آئندہ انتخابات عمران خان اور پی ٹی آئی کے بغیر ہی ہوں گے، اگر پی ٹی آئی کی کوئی اور قیادت سامنے آتی اور عمران خان پیچھے ہٹ جاتے اور تو شاید آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی حصہ لے سکتی تھی۔’اب ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا جائے گا، اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج کا موقف ہے کہ 9 مئی کا سانحہ فوج پر ایک حملہ تھا۔‘
انصار عباسی کے مطابق 9 مئی کے پر تشدد واقعات کے بعد ایک اور بات واضح ہو گئی ہے کہ فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک لڑائی سی چل رہی ہے، اگر پی ٹی آئی اور عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے دیا گیا تو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام عروج پر ہو گا۔’اگر الیکشن میں پی ٹی آئی، جس نے فوج کے خلاف حملہ کیا ہو، جیت جائے اور اس کو اقتدار مل جائے تو اس صورت میں ملک کا چلنا مشکل ہوگا۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ سول گورنمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے اچھے تعلقات کے بغیر ملک کا چلنا مشکل ہے۔‘