امریکی کانگریس،جو بائیڈن کی صدارتی انتخاب میں فتح کی توثیق کر دی

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے کے بعد کے بعد جاری رہنے والے اجلاس میں کانگریس نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کر دی ہے۔
بدھ کو مشتعل مظاہرین کی جانب سے صدر ٹرمپ کی شکست کے خلاف کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بولا گیا جس کے نتیجے میں کانگریس کی کارروائی روک دی گئی تھی۔ تاہم بعد میں اسے دوبارہ شروع کر دیا گیا تھا۔امریکی صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن نے کل 306 جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 232 ووٹ حاصل کیے۔امریکی ایوان نمائندگان نے مشترکہ طور پر ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور ان کی نائب کمالا ہیرس کے صدارتی انتخابات میں جیت کی توثیق کر دی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق نینسی پلوسی اور نائب صدر مائیک پنس کی زیر صدارت ہونے والے کانگریس کے اجلاس نے ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی سے بھرپور اجلاس نے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن اور کمالا ہیرس کی جیت کی توثیق کی۔
نائب صدر مائیک پنس کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے کیپیٹل ہل کے باہر ہنگامہ آرائی اور دنگا فساد کیا وہ نہیں جیتے، تشدد کبھی بھی نہیں جیتتا، ہمیشہ آزادی کی جیت ہوتی ہے اور یہ ایوان اب بھی عوام کا ہی ہے۔امریکی کانگریس کی توثیق کے بعد اب جوبائیڈن کے صدر بننے کے حوالے سے تمام آئینی تقاضے پورے ہو گئے ہیں اور جو بائیڈن 20 جنوری کو امریکا کے 46 ویں صدر کا حلف اٹھائیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں جوبائیڈن نے 306 اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 232 الیکٹورل ووٹس حاصل کیے تھے جبکہ امریکی انتخابات میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس درکار ہوتے ہیں۔
قبل ازیں میٹرو پولیٹن پولیس کے سربراہ رابرٹ جے کونٹی کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل کی حدود میں کیے جانے والے مظاہرے میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 52 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔امریکی نائب صدر مائیک پینس نے اس موقع پر کہا کہ ’اب جب اس چیمبر میں دوبارہ اکھٹے ہوئے ہیں تو دنیا ہماری جمہوریت کی طاقت اور برداشت کا مظاہرہ دیکھے گی۔ جنہوں نے آج کیپیٹل میں افراتفری مچائی آپ جیت نہیں سکے۔ تشدد کبھی نہیں جیت سکتا، آزادی ہمیشہ فتح یاب ہوتی ہے اور یہ ابھی بھی عوام کا نمائندہ ایوان ہے۔‘اس موقع پر نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کی ہنگامہ آرائی کو ’بغاوت‘ قرار دیا۔ جو بائیڈن نے ساتھ میں ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ آگے بڑھیں اور تشدد کو مسترد کریں۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب کیپٹل ہل میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس جاری تھا جس کا مقصد جو بائیڈن کی الیکٹورل کالج میں جیت کی باقاعدہ تصدیق کرنا تھا۔مظاہرین کی جانب سے امریکی جمہوریت کی علامت پر قبضہ کر لیا گیا۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بندوق بردار سرکاری اہلکاروں نے آنسو گیس کے دھویں میں قانون سازوں کو عمارت سے منتقل کیا اور مظاہرین کو عمارت سے نکالنے کی کوششیں تین گھنٹے تک جاری رہیں۔یہ مظاہرین عمارت کے ہالز اور اس میں موجود دفاتر میں دندناتے پھرتے رہے جو کہ کافی حیران کن مناظر تھے۔
حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل کی بلڈنگ پر دھاوے اور الیکشن نتائج کی توثیق کو روکنے کی کوشش کے دوران ایک خاتون سینے پر گولی لگنے سے ہلاک ہو گئیں۔صدر ٹرمپ نے بھی ہلاکت کے اعلان کے وقت ہی ٹوئٹر پر ان فسادات کا الزام ’اپنی بڑی فتح‘ کو ’ان سے چھیننے‘ والوں پر عائد کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ایسی چیزیں اور واقعات تب ہی ہوتے ہیں جب آپ ایک بڑی انتخابی فتح کو ایک برے اور بھدنے انداز میں ان محب الوطنوں سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں ایک طویل عرصے تک برے سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘تاہم ان مظاہروں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے بے بنیاد دعوؤں کو ہٹانے کی غرض سے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر اور فیس بک دونوں ہی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹس عارضی طور پر بند کر دیے ہیں۔
کیپیٹل پولیس نے صدر ٹرمپ کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حامیوں کی جانب سے سکیورٹی انتظامات کی خلاف ورزی کرنے اور عمارت میں زبردستی داخلے کے بعد عمارت کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک کی جانب سے امریکی کیپیٹول بلڈنگ پر مظاہرین کی ہنگامہ آرائی مذمت کی جا رہی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ’امریکی کانگریس میں دکھائی دیے جانے والے بدترین مناظر‘ کی مذمت کی۔ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اب یہ ضروری ہے کہ وہاں بھی پرامن اور مناسب انداز میں اقتدار کی منتقلی ہو سکے۔‘برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے بھی اپنی ٹویٹ میں تشدد کو مسترد کرتے ہوئے قانونی طریقے سے اقتدار کی منتقلی پر زور دیا۔
یورپی یونین کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’امریکی جمہورت پر حملہ‘ قرار دیا گیا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’دنیا کی نظروں میں امریکی جمہوریت آج محاصرے میں دکھائی دے رہی ہے۔‘فرانس کے وزیر خارجہ جین ویس لے ڈریان نے بھی اسے جمہوریت پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی جب کہ جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے صدر ٹرمپ کے حامیوں پر زور دیا کہ وہ جمہوریت کو قدموں تلے روندنے سے باز رہیں۔کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے جبکہ آسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے ان ’مایوس کن مناظر‘ کی مذمت کی ہے۔امریکی اتحادی پر مشتمل تنظیم نیٹو اور دیگر ممالک جن میں نیوزی لینڈ، نیدرلینڈز، یونان، آئرلینڈ، ترکی، آسٹریا، چیک ری پبلک، ڈینمارک، سپین، اور کئی ممالک نے بھی اس واقعے پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔