امیتابھ بچن کے ایک فیصلے نے کمار سانو کا کیرئیر کیسے بنایا؟

بالی وڈ میوزک انڈسٹری کی شان محمد رفیع اور کشور کمار کے چل بسنے کے بعد ان کی کمی کو کمار سانو نے کمال مہارت اور صلاحیت سے پورا کیا، عین اس وقت جب امیتابھ بچن کیلئے پس پردہ آواز کی تلاش تھی، 31 برس کے نوجوان سانو بھٹا چاریہ کی جب گلوکاری سنی گئی تو موسیقار جوڑی کو محسوس ہوا کہ جیسے انہیں دوسرا ’’کشور کمار‘‘ مل گیا ہو۔اگر امیتابھ بچن امریکہ میں کمار سانو کی آڈیو کیسٹ سننے کے بعد انہیں مسترد کر دیتے تو عین ممکن ہے کہ وہ آج تک بڑا نام حاصل کرنے کیلئے بھٹک ہی رہے ہوتے۔گلوکار اور موسیقار جگجیت سنگھ نے جب 1988 میں نوجوان گلوکار سانو بھٹا چاریہ کی گلوکاری کو سنا تو وہ خاصے متاثر ہوئے۔موسیقار کلیان جی آنند جی گہرے دوست تھے۔ تبھی اس نوجوان کو لے کر ان تک پہنچے اور سفارش کی یہ بہت زیادہ باصلاحیت گلوکار ہے موقع دیں۔ ان دنوں موسیقار کلیان جی آنند جی ہدایت کار پرکاش مہرہ کی فلم ’جادوگر‘ کے گانے ترتیب دے رہے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب امیتابھ بچن کے لیے پس پردہ آواز کی تلاش جاری تھی۔ محمد رفیع اور کشور کمار کے چل بسنے کے بعد امیتابھ بچن کے لیے کبھی شبیر کمار تو کبھی محمد عزیز کی آواز کا استعمال کیا جاتا تھا۔اب کلیان جی آنند جی کے لیے یہ مشکل تھی یہ دونوں گلوکار ’جادوگر‘ کے لیے تاریخیں نہیں دے پا رہے تھے۔ 31 برس کے نوجوان سانو بھٹا چاریہ کی جب گلوکاری سنی گئی تو موسیقار جوڑی کو محسوس ہوا کہ جیسے انہیں دوسرا کشور کمار مل گیا ہو۔نوجوان کا تعلق کولکتہ سے تھا لیکن گلوکاری میں ایسی مہارت تھی کہ انداز گلوکاری سے معلوم ہی نہیں لگتا کہ وہ بمبئی سے تعلق نہیں رکھتے۔ کلیان جی آنند جی تو اس نوجوان گلوکار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں مشورہ دیا کہ سب سے پہلے اپنا نام مختصر کرو۔ نوجوان گلوکار چونکہ کشور کمار کے عاشق تھے اسی لیے ان کے نام کے آغاز میں کمار کا اضافہ کیا، جو مل کر کمار سانو بنا۔ پرکاش مہرہ کو بتایا گیا کہ ایک ایسی آواز ملی ہے جو کشور کمار کی کمی دور کر دے گی۔ لیکن یہاں سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا امیتابھ بچن اپنے لیے اس آواز کو قبول کریں گے؟فیصلہ ہوا کہ کمار سانو سے ایک گیت ریکارڈ کرا کے امیتابھ بچن کو سنایا جائے۔ممبئی میں کلیان جی آنند جی انتظار میں تھے کہ دیکھتے ہیں کہ امیتابھ بچن کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک روز امیتابھ بچن کا امریکہ سے فون آیا جنہوں نے وقت ضائع کیے بغیر دریافت کیا، ’یہ گانا کس نے گایا ہے؟ امیتابھ بچن نے پرجوش آواز میں کہا، ’اب ’جادوگر‘ کے سارے گانے یہی نوجوان گائے گا۔‘کمار سانو کو خوش خبری سنائی گئی کہ ان کی آواز میں فلم کے تینوں گیت ریکارڈ کیے جائیں گے، کلیان جی نے تبھی کمار سانو پر یہ انکشاف کیا کہ ان کی آواز امیتابھ بچن کیلئے استعمال ہو رہی ہے، کمار سانو نے اس قدر دل کی گہرائیوں سے گیت گایا کہ ریکارڈنگ سٹوڈیو میں اس وقت موجود امیتابھ بچن بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہے۔لیکن اتفاق یہ رہا کہ یکم دسمبر 1989 کو ’جادوگر‘ سنیما گھروں میں سجی تو کامیابی اس سے روٹھی رہی لیکن کمار سانو کے گائے گیت سب کے کانوں میں رس گھولنے لگے، فلم کی نمائش کے سال ہی ٹی سیریز کے مالک گلشن کمار کی جوہر شناس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ کمار سانو مستقبل کے بڑے گلوکار بن سکتے ہیں۔ یہ بھی کمار سانو کو ہی اعزاز حاصل ہے کہ ’جادوگر‘ کے دو سال بعد جو بھی فلم فیئر ایوارڈز ہوئے ان میں مسلسل پانچ سال تک جب بھی سٹیج سے بہترین گلوکار کا نام پکارا گیا تو وہ کسی اور کا نہیں کمار سانو کا نام تھا۔کمار سانو نے ہر موسیقار اور اداکار کے لیے نغمہ سرائی کی اور بھارت کی ہر زبان میں گلوکاری بھی کی۔ شہرت اور مقبولیت کا وہ بلند مقام پایا جس کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے، کمار سانو کئی بار اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اگرچہ جگجیت سنگھ اور کلیان جی آنند جی نے ان کی گلوکارانہ صلاحیتوں کو شناخت کرتے ہوئے موقع دیا لیکن اگر امیتابھ بچن امریکہ میں ان کی آڈیو کیسٹ سننے کے بعد انہیں مسترد کر دیتے تو عین ممکن ہے کہ وہ آج تک بڑا نام حاصل کرنے کے لیے بھٹک ہی رہے ہوتے۔
