اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے بعد نیب چیئرمین کے لیے نئے نام

پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نئے نیب چیئرمین کے طور پر تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مقبول باقر کی مخالفت کے بعد اب حکومت اتحادی جماعتوں نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے دو مزید ریٹائرڈ ججوں کے نام تجویز کر دیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو اتحادی جماعتوں کے ایما پر باپ کے پارلیمانی لیڈر خالد حسن مگسی نے ایک خط میں چیئرمین نیب کے لیے دو نام تجویز کیے ہیں۔
ان دو ناموں میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس احمد خان لاشاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس غلام اعظم قمبرانی شامل ہیں۔
آرمی چیف جنرل باجوہ اداکارہ مایا علی کے فین کیوں بنے؟
خالد مگسی نے خط میں وزیراعظم شہباز شریف کو لکھا ہے کہ ’سابق وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی اور آپ کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔‘ خط کے مطابق ’ہماری پارٹی حکومت کو درپیش متعدد مشکلات کے باوجود ایک مضبوط اتحادی کے طور پر کھڑی ہے۔ چیئرمین نیب کے لیے دونوں نامزد افراد قانونی پریکٹس، پراسیکیوشن اور اعلیٰ عدلیہ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔‘ خالد مگسی نے کہا کہ مذکورہ سابق جج صاحبان نہ صرف قانونی برادری بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات میں بھی عزت اور اچھی ساکھ رکھتے ہیں۔
خالد مگسی کے مطابق ’ہماری پارٹی سمجھتی ہے کہ یہ دونوں شخصیات چیئرمین نیب کے عہدے کے لیے موزوں ہیں اور اس عہدے پر بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔‘ باپ کے پارلیمانی لیڈر نے کہا ہے کہ اُن کو یقین ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی نامزدگیوں پر مثبت غور کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ نیب چیئرمین کے تقرر کے لیے اتحادی جماعتوں کی حکومت نے پہلے جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا نام تجویز کیا گیا تھا جس پر اتفاق بھی ہو گیا تھا لیکن پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس کی مخالفت کر دی اور اتحادی حکومت کو پیچھے ہٹ کر نئے نام دینے پڑ گئے چونکہ جسٹس باقر بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح ایک اصول پسند جج ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ نہیں لیتے۔ یاد رہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں سرکاری ٹٹو کا کردار ادا کرنے والے نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیئرمین کی تلاش جاری ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا نام شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے اتحادیوں سے مل کر فائنل کیا تھا۔
یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سپریم کورٹ کے اس بینچ میں بھی شامل تھے جس نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وزیر اعظم عمران خان کی سفارش پر صدر علوی کی جانب سے بھیجا گیا صدارتی ریفرنس مسترد کیا تھا۔ اپنے فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو نظرانداز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ ایگزیکٹو کا اعلیٰ ادارہ ہے جس کی اعلیٰ آئینی حیثیت ہے، وزیر اعظم کی جانب سے اسے فیصلہ سازی کے لیے محض ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ 19 جون 2020 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق فیصلے میں اپنے 68 صفحوں کے نوٹ میں جسٹس مقبول باقر نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے فیصلہ سازی کے لیے کابینہ کو شامل نہ کرنا اور اسے ربڑ سٹیمپ بنادینا آئین کی اصل روح کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کابینہ کے طرز کی حکومت کو تبدیل کرکے وزیر اعظم کے طرز کی حکومت بنادیا جائے جو آئین سے متصادم تصور ہے۔ جسٹس باقر نے وضاحت دی کہ ‘اگر ہم وزیر اعظم کے عہدے کو کابینہ کے مترادف سمجھتے ہیں تو اس کے بعد وزیر اعظم خود ایک فرد کی حیثیت سے وفاقی حکومت بن جاتے ہیں، یہ ناقابل فہم ہے’۔
جسٹس باقر نے متنبہ کیاکہ یہ آئینی جمہوریت سے دشمنی ہے جو بادشاہ لوئس چودھویں کے مشہور دعوے کی یاد دلاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں ہی ریاست ہوں’۔ انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ ‘اس طرح وزیر اعظم کے اپنے اقدام پر کیے جانے والے کسی بھی فیصلے میں قانون یا آئین کا اختیار موجود نہیں’۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے جسٹس مقبول باقر سمیت 7 ججوں نے ریفرنس مسترد کیا تھا جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال سمیت 3 ججوں نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ لہذا جسٹس مقبول باقر کا چیئرمین نیب بننا نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول تھا اور نہ ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس فیصلے پر خوش تھے۔