فلم ’’اواتار: دی وے آف واٹر‘‘ 100 کروڑ ڈالرز کلب میں نمبر ون

ہالی ووڈ بلاک بسٹر فلم ’’اواتار: دی وے آف واٹر‘‘ کا دنیا بھر کے سینمائوں پر راج برقرار ہے، یہ فلم 100 کروڑ ڈالرز کلب میں شامل ہوگئی ہے، 16 دسمبر کو ریلیز ہونے والی فلم نے دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں دنیا بھر سے 100 کروڑ ڈالرز کا بزنس کر کے اس سال ریلیز ہونے والی تمام فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ رواں برس ’’اواتار: دی وے آف واٹر‘‘ سے قبل صرف تین فلمیں ہی باکس آفس پر بلین ڈالرز کا ہندسہ عبور کر پائی تھیں لیکن ان تینوں فلموں کو اتنا بزنس کرنے میں کافی وقت لگا تھا، ٹام کروز کی فلم ’’ٹاپ گن میورک‘‘ نے 100 کروڑ ڈالرز کمانے کے لیے 31 دن لیے تھے جبکہ ’’جراسک ورلڈ ڈومینین‘‘ کو چار ماہ سے زائد کا عرصہ لگا لیکن ’’اواتار‘‘ کے سیکوئل نے ان دونوں فلموں سے یہ ریکارڈ چھین لیا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں ریلیز ہونے والی ’’سپائڈر مین؛ نو وے ہوم‘‘ نے 12 روز میں 100 کروڑ ڈالر کا بزنس کیا تھا، اب پینڈیمک کے بعد ریلیز ہونے والی فلموں میں ’’اواتار: دی وے آف واٹر‘‘ کا دوسرا نمبر ہے جس نے دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں 100 کروڑ ڈالر کا بزنس کیا ہے۔ اواتار نے اب تک امریکی باکس آفس پر 31 کروڑ 71 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں جبکہ امریکہ سے باہر اس فلم نے 71 کروڑ 27 لاکھ کا بزنس کیا ہے جس کے بعد اس کا مجموعی بزنس 100 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔
جیمز کیمرون کی اس مہنگی فلم کو باکس آفس پر منافع کمانے کے لیے 200 کروڑ ڈالر سے زائد کا بزنس کرنا پڑے گا اگر اس کے پہلے دو ہفتے کے بزنس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جائے تو پروڈیوسرز کو ایسا کرنے میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ لگے گا البتہ فلم روس جیسی بڑی مارکیٹ میں ریلیز نہیں ہوئی ہے۔
ہدایت کار جیمز کیمرون نے ‘اواتار ‘ کے سیکوئل کو بنانے کے لیے 14 سال کا عرصہ صرف اس لیے لیا کیونکہ جس ٹیکنالوجی کی انہیں تلاش تھی، وہ سامنے آنے میں کافی وقت لگا، فلم کی کہانی جیک سلی نامی شخص کے گرد گھومتی ہے جس نے ‘اواتار’ کے پہلے پارٹ میں پنڈورا نامی سیارے سے انسانوں کو بھگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مبصرین کے مطابق تھری ڈی میں ریلیز ہونے والی فلم میں جس خوب صورتی سے زیرِ سمندر عکس بندی کی ہے اسے دیکھ کر شائقین دنگ رہ جاتے ہیں۔فلم میں اداکار سیم ورتھنگ ٹن، زوئی سیلڈانا، سگرنی ویور، اسٹیفن لینگ کیساتھ ٹائی ٹینک سے شہرت پانے والی کیٹ ونسلیٹ نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
برطانوی جریدے ‘ایمپائر’ نے لکھا ہے کہ گزشتہ اواتار کے مقابلے میں نئی فلم کے ہر سین میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ہو رہی ہوتی ہے جو ناقابلِ یقین ہے، جیمز کیمرون کے علاوہ کوئی بھی شخص یہ فلم نہیں بنا سکتا تھا، جریدے کا کہنا یے کہ اواتار کا سیکوئل پہلی فلم کی نسبت زیادہ بہتر ہے، یہ فلم سنیما کے تجربے کو درست انداز میں جانچنے کے لیے بنی ہے۔ جریدے نے ہالی وڈ فلموں ‘لارنس آف عریبیہ’ اور ‘ٹائی ٹینک’ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نئی اواتار کی کہانی ان فلموں سے زیادہ مختلف نہیں لیکن جس طرح جیمز کیمرون نے اپنا وژن سینما کی سکرین پر پیش کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اُن کے خیال میں یہ فلم اس سال کی سب سے بڑی بلاک بسٹر ‘ٹاپ گن: میورک’ اور ‘آر آر آر’ سے اتنا ہی آگے ہے جتنا پنڈورا زمین سے دور۔البتہ بزنس جریدے فوربز Forbes کو جیمز کیمرون کی کاوش زیادہ پسند نہیں آئی۔ فوربز کے خیال میں اس فلم کی کہانی پچھلی فلم سے ملتی جلتی تھی اور اس میں سوائے ایک دو نئی باتوں کے سب کچھ پرانا تھا۔ اس کے علاوہ فلم کے ڈائیلاگز میں نوجوان کرداروں کا ‘برو’ اور ‘کز’ جیسے الفاظ کا کثرت سے استعمال اسی طرح ناقابلِ قبول تھا، جیسے ناوی قبیلے کے بدمعاش لڑکوں کی بدمعاشی، اور ناوی قبیلے کے افراد کی فلم میں موجود ٹلکن ویلز سے گفتگو۔
برطانوی اخبار ‘دی گارجین’ کے لیے تجزیہ کار مارک کرموڈ نے ایواٹار کے سیکویل کو پانچ میں سے دو سٹارز اس لیے دیئے کیوںکہ ان کے خیال میں تین گھنٹے کی اس فلم کو دیکھنا صبر کا امتحان ہے اور لگتا ہے جیسے اس کے کردار جیمز کیمرون کے بجائے چھٹی کلاس کے ایک نشے میں دھت طالب علم نے بنائے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجزیے میں کہا کہ یہ فلم ٹیکنالوجی سے اتنی زیادہ لیس ہے کہ ہدایت کار اس میں باقی اہم چیزیں، جن میں مزاح کا عنصر قابلِ ذکر ہے، شامل کرنا بھول گئے، انہوں نے اداکار جیک چیمپئن کے کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو اس کردار کا اچانک غرانا سمجھ آںے والا نہیں تھا اور دوسرا اس کی ‘جنگل بُک’ کے کردار موگلی سے مشابہت بھی سمجھ سے باہر تھی۔