ایس سی او اور پاکستان

تحریر : سلیم صافی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

ایک وقت تھا کہ پاکستان میں کوئی کرکٹ ٹیم آنے کو بھی تیار نہیں تھی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے کہ پی ایس ایل کے لئے جاوید آفریدی کی کوششوں سے ڈیرن سمی نے پاکستان آنے پر پہلی بار آمادگی ظاہر کی تو ان کا ہیرو کے طور پر استقبال کیا گیا۔تب بھی ویسٹ انڈیز میں ڈیرن سمی کے گھر والے پریشان تھے اور بار بار ان کی خیریت دریافت کررہے تھے۔ لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب پاکستان میں ایس سی او کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا اور الحمدللہ سب مہمان خیریت کے ساتھ اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے۔

پاکستان بھارت تعلقات میں "تاریخی تبدیلی” کے امکانات؟

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس کے مقابلے کے لئے بنائی گئی نیٹو کی اب ضرورت نہیں رہی اور سرد جنگ کا شاید ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا ہے لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکہ نے نیٹو کو نہایت فعال کر دیا ۔ اسی تناظرمیں روس اور چین نے اپنے تنازعات ختم کئے اور وسط ایشیا کے پانچ ممالک کے ساتھ مل کر شنگھائی فائیو کے نام سے تنظیم قائم کی جسے بعد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا نام دیا گیا۔کچھ حوالوں سے سمجھا جارہا ہے کہ یہ نیٹو کے مقابلے کی تنظیم ہے لیکن انڈیا کی شمولیت سے سمجھا جارہا ہے کہ اس کے مقاصد میں ممبر ممالک کی خوشحالی سرفہرست ہے کیونکہ بھارت ان دنوں امریکہ مخالف کسی تنظیم کا حصہ نہیں بن سکتا۔تاہم اس تنظیم کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا گیا اور 2017میں انڈیا اور پاکستان بھی اس کے ممبر بن گئے۔

اس تنظیم کی بنیاد چین نے رکھی تھی اور وہی بڑے بھائی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مکررعرض ہے کہ انڈیا کی اس میں شمولیت سے اسے نیٹو کے مقابلے کی تنظیم قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کا جھکائو امریکہ کی طرف ہے لیکن اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم ہونے کے ناطے اس کی اہمیت سے انکاربھی نہیں کیا جاسکتا۔ بہ ہر حال شنگھائی تعاون تنظیم آنے والے وقت میں موثر ثابت ہوتی ہے یا نہیں لیکن اس وقت پاکستان میں اس کے سربراہی اجلاس کے انعقاد سے ہمیں کئی فوائد حاصل ہوئے ۔ پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ پاکستان نے دس سے زائد ممالک کے سربراہان اور اہم شخصیات کی کانفرنس کی میزبانی کی اور اللہ کے فضل و کرم سے کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔ اس سے پاکستان کے اوپر دنیا کا اعتماد بڑی حد تک ہموار ہوگیا اورسیکورٹی کے حوالے سے بیرونی دنیا کے ذہنوں میں جو خدشات تھے اس میں بڑی حد تک کمی آئی ہوگی۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ چین کے وزیراعظم جو ایک روز پہلے تشریف لائے تھے ، نے کئے ایم او یوز پر دستخط کئے جس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ چینیوں کے خلاف تخریب کاری کے واقعات سے اس کے ارادوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ دس سال بعد انڈیا کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لے آئے اور ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ساتھ ان کی کھسر پھسر بھی ہوئی۔ برکھادت اور دیگر بھارتی صحافیوں کے ساتھ نواز شریف کا تبادلہ خیال بھی ہوا اور ہوسکتا ہے اس کھسر پھسر سے آگے کیلئےخیر بھی برآمد ہو۔

ان فوائد کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون کانفرنس کی وجہ سے اسلام آباد کے شہریوں کو بالخصوص اور دیگر کو بالعموم بہت تکلیف بھی اٹھانی پڑی لیکن اس میں بھی یہ فائدہ ہوا کہ اسلام آباد کی سڑکوں کو ری پیئر کر دیاگیا اور ریڈزون کو بہت خوبصورت بنادیا گیا۔

Back to top button