’بال پکر ‘سے قومی کرکٹر بننے والے بابر اعظم کے کیرئیر کی مکمل کہانی
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کا قومی ٹیم تک پہنچنے کا سفر بہت کٹھن اور مشکل رہا ہے، اکثر رشتہ داروں کی وفات کی خبر گراؤنڈ میں ہی ملتی تھی یا بیرون ممالک ٹورنامنٹس کے دوران جس کی وجہ سے تمام دکھ بھی گراؤنڈ میں ہی برداشت کرنا پڑے ہیں، اکثر گراؤنڈ تک پہنچنے کےلیے بس میں سفر کرنا پڑتا تھا بعض اوقات کرایہ بچنے پر سموسے کھاتا تھا۔
بابر اعظم نے بتایا کہ ’جب میں پہلی بار پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ گراؤنڈ میں داخل ہو رہا تھا تو مجھے اپنا وہ وقت یاد آگیا جب میں بال پکر بن کر آیا تھا۔ ’وہ ٹیسٹ میچ انضی بھائی (انضمام الحق) کا آخری ٹیسٹ میچ تھا، جس میں میں پاکستان ٹیم کو بولنگ کرانے آیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک وقت وہ تھا جب میں پاکستان ٹیم کو بولنگ کرانے آیا تھا اور اب میں خود پاکستانی ٹیم کا حصہ ہوں،بابر اعظم اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ وہ وقت تھا جب وہ کرکٹ کھیلنے صبح گھر سے نکلتے تھے اور شام کو واپس آتے تھے۔
پہلے سال وہ انڈر15 میں منتخب ہوئے تھے لیکن تین میچوں میں وہ کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے تھے، بابر دلچسپ انداز میں بتاتے تھے کہ اس دور میں بسوں کا سفر مزے کا ہوتا تھا، کبھی رش کی وجہ سے وہ کرائے کے پیسے بچا لیتے تھے اور ان پیسوں سے وہ سموسے کھایا کرتے تھے۔
انگلینڈ کے خلاف دوسرا ٹیسٹ : پاکستان کا ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
بابر کہتے ہیں اس سفر میں کچھ ایسے لمحات بھی آئے جو کافی مشکل اور تکلیف دہ تھے۔ وہ جنوبی افریقہ میں سہ فریقی انڈر 19 سیریز کھیل رہے تھے جب انہیں اپنے تایا کے انتقال کی خبر ملی۔ اسی طرح ایک مرتبہ میچ کے موقعے پر انہیں اپنی دادی کے انتقال کی اطلاع ملی۔ ’یہ واقعات ایسے ہوتے ہیں جب آپ کو بہت قربانی دینی ہوتی ہے۔
بابر کہتے ہیں کہ ان کے کیریئر میں ان کے والد کا کردار بہت اہم رہا ہے، غلطی پر ان سے ڈانٹ اور مار بھی پڑی۔انہوں نے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کی اور غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔
بابراعظم کے مطابق سرفراز احمد اور دیگر سینئرز کو دیکھ کر ان سے بات کرکے بھی سیکھنے کو ملا۔ آپ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھتے ہیں۔’آپ کھلاڑیوں کو جتنی کلیئرٹی اور اعتماد دے سکتے ہیں وہ خود آپ کے لیے بہتر ہوتا ہے اور ٹیم کے لیے بھی۔