“باپ” اور مسلم لیگ (ن) ٹچ بٹنوں کی جوڑی کیسے بنے؟

سینئر صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ عوام کی بجائے ریاستی اداروں کی بالادستی تسلیم کرنے کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں کے درمیان اصل مقابلہ خود کو ریاست کا ”بہتر مددگار“ ثابت کرنے کے لئے ہورہا ہے۔مسلم لیگ (نون) فی الوقت اس تناظر میں بازی لیتی نظر آرہی ہے۔۔ بلوچستان کے نام نہاد الیکٹ ایبلز کی متاثر کن تعداد نواز شریف کی جماعت میں شامل ہوچکی ہے۔۔مسلم لیگ (نون) اور ”باپ“ مگر اب ٹچ بٹنوں کی جوڑی کی طرح باہم مل چکے ہیں لہذا وطن عزیز میں اب وہی ہوگا جو ”ان“ کا حسن کرشمہ ساز چاہے گا۔ اپنے ایک کالم میں نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ 2008ء کے انتخابات کے نتائج کی بدولت نو برس تک ہمارے مائی باپ رہے جنرل مشرف استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے تو سادہ لوحوں نے فرض کر لیا کہ وطن عزیز بالآخر ”شاہراہ جمہوریت“ پر گامزن ہوگیا ہے۔نئی پارلیمان کے قیام کے چند ہی ماہ بعد مگر جنرل مشرف کے برطرف کئے چیف جسٹس افتخا رچودھری کو بحال کرنا پڑا۔ چیف جسٹس کے منصب پر لوٹنے کے بعد موصوف نے ازخود نوٹس والے اختیارات کی بدولت خود کو وہ دیدہ ور ثابت کرنا شروع کردیا جو بقول اقبال ”نرگس“ کو ہزاروں برس انتظار میں رلاتا ہے۔ریاست کے نام نہاد تین ستونوں کے مابین مگر چودھری صاحب کی دیدہ وری کی بدولت توازن برقرار نہ رہ پایا۔ عدلیہ نے بتدریج پارلیمان کو ”چور اور لٹیروں“ کی کمین گاہیں ثابت کردیا۔ منتخب اداروں کی ا جتماعی ساکھ کو ان دنوں عدلیہ کی جانب سے نہایت بے دردی سے تباہ وبرباد کیا جارہا تھا جب ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندوں کا ایک گروہ مصر تھا کہ مغرب کی متعارف کردہ جمہوریت ”فاسد“ ہے۔ اسے تباہ کرنے کے بعد طالبان کے بیان کردہ ”اسلام“ کو نافذ کرنا ہوگا۔ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے انتہا پسندوں کے ہاتھوں طویل عرصے تک ”یرغمالی“ رہے تھے۔وہ مگر ریاست کی رٹ بالآخر بحال کرنے پر مجبور ہوگئے۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف برپا آپریشنوں کے دوران ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن سازوں“ کی اکثریت ”طالبانی سوچ“ پر سوال اٹھانے کے بجائے سیاستدانوں کو بدعنوان ثابت کرنے میں مصروف رہی۔ صحافیوں کی اکثریت افتخار چودھری کے لئے اقدامات سے متاثر ہوکر ”جمہوری نظام“ کی اس شکل کو ”نقش کہن“ ثابت کرنے میں مصروف رہی جو ہمارے ہاں تحریری صورت میں دئے آئین نے 1973ءمیں متعارف کروائی تھی۔ دریں اثناءکرشمہ ساز شخصیت کے مالک عمران خان بھی اکتوبر2011ءمیں مینارِ پاکستان تلے ہوئے ایک جلسے کے ذریعے ”تبدیلی“ کا سونامی برپا کرنے کی مہم پر چل نکلے۔ ضرورت سے زیادہ متحرک عدلیہ،مذہبی انتہا پسندوں کی پھیلائی دہشت اور سونامی کی تمنا نے ہمیں مسلسل اضطراب میں مبتلا کردیا۔ 2013ءکا انتخاب ماحول کو معمول بنانے میں ناکام رہا۔اس کے نتیجے میں بھی ہمیں دھرنے ہی ملے اور بالآخر وہ ماحول جہاں ایک آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ”جانے کی باتیں نہ کرو“کی فریاد کرنا پڑی۔ انہیں مگر برادر ملک سعودی عرب نے ”مسلم امہ کے فوجی اتحاد“ کی سربراہی کے لئے اپنے ہاں بلوالیا۔ ان کی جگہ قمر جاوید باجوہ تشریف لائے جو عمران خان کے ساتھ ”سیم پیج“ پر یکجا ہونے کو بے چین تھے اور 2018ءمیں ہوئے انتخاب نے اس ضمن میں ان کی مشکلیں آسان کردیں۔ ”سیم پیج“ کی بدولت باجوہ اور عمران خان تو یک جان دوقالب ہوگئے مگر ہمارا سیاسی نظام اپنی شناخت کھوبیٹھا۔ یہ جمہوری رہا نہ آمرانہ۔آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی رہا۔ اس کی بدولت جو ”اچھی خبریں“ آتیں ان کا کریڈٹ” سیم پیج“ کا ہر مکین لینے کو بے تاب رہتا۔ ناکامیوں کی ذمہ داری لینے کو البتہ کوئی تیار نہ ہوتا۔ نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ 2017ءسے البتہ مسلم لیگ (نون) نے ہمیں امید دلانا شروع کردی کہ وہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کے ساتھ پاکستان کو شاہراہ جمہوریت پر واپس کھینچ لائے گی۔ عمران مخالف جماعتوں نے اس ضمن میں اس کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا۔ بلند وبانگ وعدوں کے باوجود مگر نواز شریف صاحب کو جیل سے نکال کر علاج کے نام پر لندن بھجوادیا گیا۔وہ لندن تشریف لے گئے تو ان کی جماعت نے قمر جاوید باجوہ کو بطور آرمی چیف مزید تین برس تک اس منصب پر برقرار رکھنے کو جائز قرار دینے والے قانون کی حمایت کا فیصلہ کرلیا جنرل باجوہ کی میعادِ ملازمت میں اضافے والے قانون کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے 12منٹ کی تاریخی مدت میں ”متفقہ“ منظوری کے بعد کچھ سادہ لوح افراد کو یہ جان لینا چاہیے تھا کہ ہمارے تمام سیاستدان باہمی اختلافات بھلاکر ”اسی زلف“ کے اسیر ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے دیرینہ اورد ن بدن گھمبیر ہوتے مسائل کا ان کے پاس کوئی حل موجود نہیں ہے۔ وہ اس ضمن میں ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کی ”اجتماعی دانش“ سے رہ نمائی کے طلب گار ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کا ا جتماعی بانجھ پن ان قوانین کی ”متفقہ“ اور برق رفتار منظوری سے مزید عیاں ہوگیا جو پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی منفی فہرست سے نکالنے کے لئے پارلیمان نے نہیں بلکہ ریاست کے طاقت ور ترین ادارے نے تیار کیے تھے۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (نون) کے قائد نواز شریف نے اپنے چوتھے بھائی اور دختر سمیت کوئٹہ میں دو دن گزارے ہیں۔ بلوچستان کے نام نہاد الیکٹ ایبلز کی متاثر کن تعداد ان کی جماعت میں شامل ہوچکی ہے۔یاد رہے کہ ان کی اکثریت ہی نے 2017میں ان کی جماعت کو بلوچستان سے فارغ کرنے کے بعد اسے سینٹ میں بھی بے اثر بنادیا تھا ۔مسلم لیگ (نون) اور ”باپ“ مگر اب ٹچ بٹنوں کی جوڑی کی طرح باہم مل چکے ہیں۔وطن عزیز میں اب وہی ہوگا جو ”ان“ کا حسن کرشمہ ساز چاہے گا۔دل جلانے سے لہٰذا ہر سوچنے سمجھنے والے کو گریز اختیار کرنا ہوگا۔

Back to top button