بلاول بھٹو کو آصف زرداری کی کن پالیسیوں پر اعترض رہا ؟

سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے سیاسی طور پر کم تجربہ کار قرار دئیے جانے کا بعد ان کے صاحبزادے اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری دبئی چلے گئے جسے سیاسی حلقے باپ بیٹے اور پارٹی میں اختلافات بڑھنا ہی تصور کر رہے ہیں مگر یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جب پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے متضاد بیانات سامنے آئے ہوں۔بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری میں انتخابات کی ٹائمنگ کے حوالے سے سرد جنگ گذشتہ ماہ اس وقت سامنے آئی تھی جب نگران حکومت کے قیام کے بعد بلاول بھٹو مسلسل انتخابات مقررہ نوے روز میں کرانے پر زور دیتے رہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے آئے۔ کراچی میں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بلدیاتی نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا دعویٰ تھا کہ ملک میں پی پی پی واحد جماعت ہے جو وقت پر انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کبھی کوئی نام نہاد رہنما ٹی وی پر آتا ہے اور کہتے ہیں حلقہ بندیوں تک انتخابات میں تاخیر ہونی چاہیے، حلقہ بندیوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب وہ عمل مکمل ہو چکا ہے تو پھر اب انتخابات کی تاریخ دینا میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو کے اس بیان کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کا 9 ستمبر کو ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کیا جو بلاول بھٹو کے بیانات اور موقف کے برعکس تھا۔ بلاول ہاؤس کی جانب سے صدر زرداری کے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ انھیں چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر پورا اعتماد ہے، مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے۔
سابق صدر آصف زرداری نے پاکستان فوج کے زیر انتظام سرمایہ کاری کے منصوبے ایس آئی ایف سی کے جلد تکمیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک اس وقت ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کے لیے ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔ آصف علی زرداری کا جب یہ بیان سامنے آیا اس وقت بلاول بھٹو ٹھٹہ، سجاول سے ہوتے ہوئے بدین میں جلسہ کر چکے تھے۔ اس جلسے میں موجود ایک صحافی نےبدین کے ایک صحافی نے بلاول بھٹو سے سوال کیا کہ آپ کے موقف اور آصف زرداری کے موقف میں تضاد ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جہاں تک گھر کے معاملات ہیں وہ صدر زرداری کے پابند ہیں لیکن جہاں تک سیاسی اور آئینی باتیں ہیں، جہاں تک پارٹی پالیسی کی باتیں ہیں وہ اپنی پارٹی اور اپنے کارکنوں اور سی ای سی کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ رواں ماہ 16 نومبر کو خیبرپختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں جلسہِ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ’کسی کو دوسری یا چوتھی بار وزیر اعظم بنانے سے بہتر ہے کہ انھیں موقع دیا جائے اور یہ کہ اگر ان کو موقع دیا جاتا ہے کہ تو وہ مایوس نہیں کریں گے۔‘ 21 نومبر کو چترال میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پرانے سیاستدانوں کو گھر بٹھانا پڑے گا، کیا ہم قوم کا مستقبل ایسے سیاستدانوں کے سپرد کر سکتے ہیں جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پرانے سیاستدان آرام کریں۔۔۔‘ نو اگست کو پارلیمان میں بطور وزیر خارجہ خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’میاں نواز شریف کو آصف زرداری کو ایسے فیصلے لینے چاہیں جس سے میرے لیے اور مریم نواز کے لیے سیاست کرنا آسان ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے بڑوں نے پچھلے 30 سال میں جیسی سیاست کی ہی ویسے ہی سیاست ہم اگلے 30 سال کریں۔‘ یہ سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے وہ بیانات ہیں جو انھوں نے ماضی قریب میں دیے اور ان تمام سوالات کا جواب ان کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری نے جیو کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں اینکر حامد میر کو جمعرات کی رات دیے گئے انٹرویو میں کچھ اس طرح دیا کہ ’بلاول ابھی ٹرینڈ نہیں، اس کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔ اس (بلاول) کو کچھ وقت لگے گا۔‘ ’وہ مجھ سے زیادہ ٹیلنٹڈ اور تعلیم یافتہ ہیں، وہ بہتر بول لیتا ہے مگر تجربہ تجربہ ہے۔۔۔۔ وہ نئی نسل سے ہیں اور اپنی سوچ کا اظہار کر رہے تھے اور سوچ پر کوئی قدغن نہیں مگر سیاست میں سیکھنے میں بہت وقت لگتا ہے، مجھ سے ابھی تک غلطیاں ہو رہی ہیں۔۔۔ یہ نئی پود کی وہی سوچ ہے کہ ’بابا آپ کچھ نہیں جانتے۔‘ بلاول کے بیانات سے متعلق وضاحت اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد سابق صدر نے مزید کہا کہ ’دو پارٹیاں ہیں، ایک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ایک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین (پی پی پی پی) ہے۔ میں پی پی پی پی کا صدر ہوں جبکہ پی پی پی کا چیئرمین بلاول ہے اور پارٹی کے ٹکٹ پی پی پی پی کے صدر کے طور پر میں دوں گا، بلاول کو بھی ٹکٹ میں دوں گا۔‘ آصف زرداری کی جانب سے یہ بیان آنے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ پیپلز پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ دوسری جانب بلاول بھٹو دبئی روانہ ہو چکے ہیں جہاں سے انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی پروفائل تصویر والدہ کے ساتھ شیئر کی. پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے سابق صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے اس بارے میں کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت میں اختلافات کی افواہیں بے بنیاد ہیں اور بلاول بھٹو زرداری طے شدہ شیڈول کے مطابق دبئی گئے ہیں۔

Back to top button