بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے والے بھولا اور چریا کون ہیں؟

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں بھتہ نہ ملنے پر 264 نہتے افراد کو فیکٹری سمیت آگ لگا کر قتل کرنے والے عبدالرحمٰن عرف بھولا اور محمد زبیر عرف چریا ایم کیو ایم کے ڈیتھ سکواڈ کے ممبرز تھے جن کو متحدہ کی قیادت لوگوں کی جانیں لینے کے لئے استعمال کرتی تھی۔۔
یاد رہے کہ ان دونوں سفاک قاتلوں کو بلدیہ فیکٹری کیس میں 264 مرتبہ سزائے موت اور 10 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے، عوام کی ذہنوں میں یہ سوال زیر گردش ہے کہ 8 سال قبل 11 ستمبر 2012 کو سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیکٹری کو آگ لگانے والے یہ درندے ہیں کون؟ علی انٹرپرائیز نامی اس فیکٹری میں آتشزنی کے مقدے میں ایم کیو ایم کے سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی، کراچی تنظیم کے سربراہ حماد صدیق، ایم کیو ایم کے اس وقت کے سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا، زبیر چریا، حیدرآباد کے تاجر ڈاکٹر عبدالستار خان، عمر حسن قادری، اقبال ادیب خانم، فیکٹری کے چوکیدار شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد کو ملزم قرار دیا گیا تھا۔ ملزمان پر الزام تھا کہ انھوں نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر بھتے کی عدم ادائیگی پر فیکٹری میں آگ لگائی، مقدمے میں فرانزک شواہد، کیمیکل رپورٹس کے علاوہ استغاثہ نے 400 گواہ بھی پیش کیے۔
اس مقدمے میں ابتدائی طور پر علی انٹر پرائز فیکٹری کے مالکان عبدالعزیز بھائیلہ ان کے دو بیٹوں ارشد اور شاہد بھائی سمیت جنرل منیجر اور چار چوکیداروں پر غفلت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم اس مقدمے میں اس وقت دوسرا رخ اختیار کیا جب سنہ 2015 میں رینجرز کی جانب سے ہائی کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی تھی اس عمل کو دہشت گردی قرار دیا گیا۔ 2016 میں دوبارہ تحقیقات کے بعد پولیس نے دوبارہ مقدمہ درج کیا، اسی سال کے آخر میں سیکٹر انچارج ایم کیو ایم رحمان بھولا کو بیرون ملک سے گرفتار کر کے لایا گیا۔ رحمان بھولا نے مجسٹریٹ کے روبرو بیان میں کہا تھا کہ وہ ایم کیوایم کے ڈیتھ سکوارڈ کا متحرک رکن ہے جسے پارٹی کی قیادت الطاف حسین کے احکامات پر لوگوں کی جانیں لینے کے لئے استعمال کرتی تھی۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بلدیہ فیکٹری کو اس نے اور زبیر چریا نے حماد صدیقی کے حکم پر آگ لگائی۔ بلدیہ فیکٹری واقعے کی تفصیلات سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ 25 صفحات پر مبنی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں موجود ہیں۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں پولیس، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، رینجرز اور ایف آئی اے کے اہلکار شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق رحمٰن بھولا متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما حماد صدیقی کا فرنٹ مین تھا۔ ملزم رضوان قریشی نے بتایا کہ حماد صدیقی نے اگست 2012 میں رحمٰن بھولا کے ذریعے علی انٹرپرائزز سے 20 کروڑ روپے تاوان مانگا تھا۔ بعد میں رحمٰن بھولا کو حماد صدیقی نے ہی بلدیہ ٹاؤن کا سیکٹر انچارج بھی مقرر کیا۔ رپورٹ کے مطابق رضوان قریشی نے بتایا کہ 20 کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی نہ کرنے پر رحمٰن بھولا اور اس کے ساتھیوں نے فیکٹری پر کیمیکل پھینک کر آگ لگا دی تھی۔ رپورٹ کی حتمی سفارشات میں کہا گیا تھا کہ رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی نے فیکٹری میں آگ لگانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ فیکٹری کے پروڈکشن مینیجر محمد منصور کے مطابق 20 جولائی 2012 کو رحمٰن بھولا انہیں فیکٹری میں ملنے آیا جہاں فیکٹری مالکان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اگلے دن انہیں بتایا گیا کہ رحمٰن بھولا نے ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کے نام پر 25 کروڑ تاوان یا فیکٹری میں شراکت داری کا مطالبہ کیا تھا۔ منصور کے مطابق فیکٹری مالکان نے انہیں ایک کروڑ روپے ایم کیو ایم کے ساتھ معاملات نمٹانے کے لیے دیے مگر رحمٰن بھولا 20 کروڑ سے نیچے آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھولا نے دھمکی دی تھی کہ اگر تاوان نہ دیا گیا تو فیکٹری کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ جس کے بعد بھولا نے فیکٹری کو آگ لگانے کا ٹاسک زبیر عرف چریا کے سپرد کر دیا۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کادوسرا ملزم محمد زبیر عرف چریا ایم کیو ایم کا متحرک کارکن اور ڈیتھ سکوارڈ کا رکن تھا اور فنشنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق آگ لگانے والوں میں چریا بھی شامل تھا۔ پروڈکشن مینیجر منصور کے مطابق زبیر اسی فیکٹری کا ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کا ورکر بھی تھا اور اس کی وجہ سے فیکٹری میں اس کا کافی اثرورسوخ تھا۔فیکٹری میں کام کرنے والے ورکر محمد ارشد نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ جس دن فیکٹری میں آگ لگی، زبیر پانچ دیگر افراد کے ساتھ فیکٹری کے گودام کے مرکزی دروازے پر موجود تھا اورہشیش سے بھرے سگریٹ بنا رہا تھا۔ اسی جگہ پر زبیر نے کالے رنگ کے چھوٹے شاپنگ بیگ اپنے ساتھیوں کو دیے اور سب نے الگ لگ جگہ پر یہ شاپنگ بیگ پھینک دیے اور پانچ سے 10 سیکنڈ میں فیکٹری کو آگ لگ گئی۔ رپورٹ میں شامل محمد ارشد کے بیان کے مطابق جب فیکٹری مالکان نے آگ کو بجھانے کے لیے شور کیا تو وہ کینٹین کی طرف گیا مگر کینٹین کا دروازہ لاک تھا۔ جب کینٹین کے دروازے کی چابی ملی اور دروازے کو کھولا گیا تو زبیر اپنے نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ کینٹین میں موجود تھا۔
تفتیش کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا نے اپنے سیکٹر کے دفتر سے زبیر عرف چریا اور دیگر ملزمان کو کیمیکل (میگنیشیم میٹل) فراہم کیا جہاں تمام ملزمان جمع ہوگئے تھے۔ عبدالرحمٰن عرف بھولا نے ملزمان کو فیکٹری کے گیٹ تک پہنچایا۔ فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد اس وقت کے ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی حنیف شیخ اور عبدالرحمٰن عرف بھولا فیکٹری کے باہر موجود تھے۔ سانحہ بلدیہ کے بعد زبیر چریا کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔زبیر عرف چریا کو رینجرز نے 90 روز کی حراست میں رکھا اور قتل کے متعدد کیسز میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں سائٹ بی پولیس کے حوالے کردیا کیونکہ پولیس زبیر عرف چریا کو بلدیہ فیکٹری کے معاملے پر گرفتار کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) ٹو نے بلدیہ فیکٹری کیس میں زیبر عرف چریا کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جس کے بعد زبیر کی اس مقدمے میں گرفتاری ڈالی گئی۔دسمبر 2016 میں رحمٰن بھولا کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا۔ کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پر کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی۔جنوری 2019 میں کیس کے مرکزی ملزم رحمٰن بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سے مکرگئے تھے۔
دو ستمبر2020 کو گواہان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔بعد ازاں 22 ستمبر کوکراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے آٹھ سال پہلے پیش آنے والے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے دو مرکزی ملزمان رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو 264 مرتبہ سزائے موت کا حکم دیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی سمیت چار افراد کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔ بری ہونے والے دیگر تین افراد میں ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبدالستار شامل ہیں۔ دوسری جانب عدالت نے واقعے میں سہولت کاری کے جرم میں چار ملزمان فضل احمد، علی محمد، ارشد محمود اور فیکٹری منیجر شاہ رخ کو عمر قید کی سزا سنائی۔