بلومبرگ نے ملا غنی برادر کے زخمی ہونے کی تصدیق کر دی

معروف امریکی اخبار بلوم برگ نے دعویٰ کیا ہے کہ حال ہی میں افغانستان کے نائب سربراہ مقرر ہونے والے ملا عبد الغنی برادر طالبان کی آپسی لڑائی میں حقانی گروپ کے ہاتھوں زخمی ہوگئے ہیں۔
اس سے پہلے پچھلے کئی روز سے ایسی اطلاعات آرہی تھیں کہ ملا عبدالغنی برادر اس لئے افغانستان کے سیاسی منظر سے غائب ہیں کہ انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان خبروں کی تردید کی تھی۔ بعد ازاں پہلے ملا برادر کی ایک آڈیو اور پھر ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی لیکن ان دونوں کی تصدیق نہیں ہو پائی تھی۔اب امریکی اخبار بلومبرگ نے دعوی کیا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر زخمی ہو چکے ہیں۔
خبر کے مطابق ستمبر کے آغاز میں افغانستان کے صدارتی محل میں حکومت سازی پر اجلاس جاری تھا کہ ملا عبد الغنی برادر پر حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بھائی خلیل الرحمٰن حقانی نے حملہ کر دیا۔ صدارتی محل کے ذرائع سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملا غنی برادر دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت میں غیر پشتون اور غیر طالبان گروپوں کی شمولیت چاہتے تھے تاہم سخت گیر مؤقف رکھنے والے دھڑے کے سربراہ خلیل حقانی نے ملا برادر سے سخت لہجے میں اختلاف کیا۔ لیکن یہ زبانی اختلاف تب جسمانی جنگ میں بدل گیا جب دوران اجلاس حقانی نے ملا برادر پر حملہ کر کے لاتوں اور مکوں سے ان پر تشدد شروع کر دیا۔
بلومبرگ کے مطابق اس صورت حال میں دونوں اطراف سے گولیاں چلیں اور ملا عبد الغنی برادر ان کی زد میں آ کر زخمی ہو گے۔
واضح رہے کہ ملا برادر افغان طالبان میں معتدل چہرہ سمجھے جاتے ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر طالبان کے نمائندہ کے طور قبولیت ملی ہے۔ یہ ملا برادر ہی تھے جنہوں نے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھولا اور امریکہ سے مذاکرات میں کامیابی سمیٹی۔ طالبان نے چند روز قبل ملا عبدلغنی برادر کی موت سے متعلق خبروں کی تردید کی تھی تاہم ملا برادر ابھی تک بذات خود سامنے نہیں آئے جس سے شکوک و شبہات یقین میں بدل رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ شاید یہ جنگجو ملک چلانے کے قابل نہ ہوں اور اب ان تمام خدشات کی تصدیق ہو گئی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ طالبان کی آپسی لڑائی کا براہ راست نقصان افغانستان کو خانہ جنگی کی صورت میں ہو گا تاہم افغانستان سے باہر سب سے زیادہ پاکستان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ حقانی گروپ کی جڑیں براہ راست پاکستان میں ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے جنگجو پاکستان میں موجود مدرسہ حقانیہ کے طلبہ ہیں جو نہ صرف افغان طالبان کا حصہ ہیں بلکہ اس گروپ کے چند جنگجو پاکستان مخالف بھی ہیں۔ دوسری جانب مریکہ سمیت یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ حقانی گروپ دراصل پاکستان کا پیدا کردہ ہے اور اسی کے مفادات کیلئے کام کرتا ہے۔
ملا عبدالغنی برادر کے قتل کی افواہوں کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ طے ہو چکا کہ جیت کے بعد طالبان کو اپنی صفوں میں امن برقرار رکھنے اور تباہی کے دہانے پر پہنچے ملک کو چلانے جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق باہر سے طالبان نظریاتی اور تزویراتی معاملات میں یکساں اور متحد دکھائی دے سکتے ہیں لیکن کسی بھی دوسری بڑی سیاسی تنظیم کی طرح کئی دہائیوں پرانے اس اسلام پسند گروپ کی اپنی تقسیم، دشمنی، وفاداریاں اور دھڑے ہیں۔ لیکن اپنے مشترکہ دشمن امریکہ کی شکست کے ساتھ ہی صرف چند ہفتوں میں کے اندر حکمران طالبان گروپ میں دراڑیں کھل کر دکھائی دیتی ہیں۔ اس وقت بنیادی مسئلہ حقانی گروپ اور برادر گروپ کے آپسی اختلافات ہیں۔ سراج الدین حقانی کا عسکری دھڑا معاملات جنگجوانہ ذہنیت کے تحت چلانا چاہتا ہے جب کے ملا عبدالغنی برادر کا سیاسی دھڑا سیاسی انداز میں تمام افغان گروپوں کی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دو دھڑوں کی لڑائی بالآخر طالبان حکومت کو لے ڈوبے گی۔