بلوچستان کے سیاسی دنگل کا فاتح کون ہو گا؟

آمدہ عام انتخابات سے قبل دو بڑی سیاسی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی بلوچستان کو ففتح کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جہاں ایک طرف نواز شریف بلوچستان کے 30 سے زائد الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے ہیں وہیں سابق صدر آصف زرداری نے بھی بچ جانے والے سیاسی عمائدین کو رام کر لیا ہے تاہم آنے والے الیکشن میں کس سیاسی جماعت کا پلڑا بھاری ہو گا اس حوالے سے کوئی پھی پیشگوئی کرنا قبل از وقت ہے۔

وی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کے خاتمے کے وعدے لیے ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے صوبے کا دورہ کیا۔پہلے پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے دورے کے موقعے پرجہاں 30 سے زائد الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں شامل کیا تو وہیں دیگر اثررسوخ رکھنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں سے انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بھی وعدے کیے جس سے یہ تاثر ملا کہ آئندہ انتخابات میں بلوچستان سے ن لیگ اس پوزیشن میں ہو گی کہ حکومت سازی کر سکے۔ تاہم بعد ازاں سابق صدر آصف علی زرداری اور چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بلوچستان کا دورہ کر کے پیپلز پارٹی کی اگلی حکومت بنانے کے دعوے کئے۔

بلوچستان کے سیاسی اکھاڑے میں کس جماعت کا پلڑا بھاری ہے اس سوال کے جواب میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی و بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید نے کہا کہ ن لیگ کا دورہ بلوچستان الیکٹیبلز کو جمع کرنے کے لیے تھا اور اس کے نتیجے میں وہی الیکٹیبلز واپس آئے جنہوں نے سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ن لیگ کی ہی حکومت گرا کر بلوچستان عوامی پارٹی کی داغ بیل ڈالی تھی۔عرفان سعید نے کہا کہ گزشتہ انتخابات کی بات کی جائے تو ن لیگ صوبے میں صرف ایک نشست حاصل کرنے میں ہی کامیاب رہی تھی تاہم الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد کا ن لیگ میں جمع ہونا آئندہ انتخابات میں اس کی مستحکم پوزیشن کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔

صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینیئر صحافی ایوب ترینکے مطابق اتنی بڑی تعداد میں بلوچستان کے قبائلی و سیاسی رہنماؤں کوشامل کرنا پارٹی کے لیے تو نیک شگون ثابت ہو سکتا ہے مگر عوامی مسائل کے حل کے لیے ن لیگ کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دورے کے موقعے پر لیگی قیادت صرف فائیو اسٹار ہوٹل تک ہی محدود رہی اور اس کی جانب سے ایک بھی عوامی اجتماع کا انعقاد نہیں کیا گیا۔

حال ہی میں ملک کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے بلوچستان پہنچی۔ 4 روزہ دورے کے موقعے پر پیپلز پارٹی نے یوم تاسیس کے جلسے کا انعقاد، قبائلی و مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں، ورکرز کی داد رسی اور وکلا سے ملاقاتیں کر کے اپنے دورے کو عوامی رنگ دینے کی کوشش کی جو لیگی دورے سے بالکل مختلف تو معلوم ہوتی تھی لیکن پس پردہ اس کے اہداف بھی ن لیگ سے مختلف نہیں تھے۔

ایوب ترین کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا دورہ ن لیگ کے رہنماؤں کے دورے سے بہتر اس طرح تھا کہ پیپلز پارٹی نے عوامی حلقوں میں زیادہ وقت گزارا جب کہ ن لیگ صرف لوگوں کو جمع کرنے ہی یہاں آئی تھی۔انہوں نے کہا کہ گو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس کا جلسہ اس طرح سے متاثر کن ثابت نہیں ہوا مگر اس کے باوجود پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا صوبے کے ورکرز سمیت صحافیوں اور وکلا تنظیموں سے ملاقاتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔

عرفان سعید کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی سنہ 2018 کے انتخابات میں بلوچستان کے عوام کو متاثر نہیں کر سکی جس کی وجہ سے وہ صوبے میں ایک بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی تاہم بلوچستان میں اب بھی پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن موجود ہیں جس کی وجہ سے یوم تاسیس پر اچھا جلسہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوامی اعتبار سے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کو ن لیگ پر اور سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو ن لیگ کو پیپلز پارٹی پر سبقت حاصل ہوئی۔

Back to top button