بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے؟

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شاہ زین بگٹی کو بلوچ مزاحمت کاروں سے بات چیت کے لیے اپنا معاون خصوصی مقرر کئے جانے کے باوجود مبصرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ جب تک عسکری قیادت نہیں چاہے گی مذاکرات کامیاب نہیں ہوپائیں گے کیونکہ ماضی میں بھی سویلین حکومتیں ایسی کوششیں کر چکی ہیں مگر عسکری قیادت کی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہو پائی۔
حکومت پاکستان عسکریت پسند بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کا ارداہ رکھتی ہے، گزشتہ 15 برسوں میں یہ چوتھی حکومت ہے جس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے اور اس بار یہ ذمہ داری شاہ زین بگٹی کو دی گئی ہے، جو بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں۔ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے گزشتہ ہفتے کابینہ نے ناراض بلوچ قیادت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ بلوچستان میں ناراض عناصر سے بات چیت پر کام جاری ہے تاہم ان عناصر سے بات چیت ہو گی جو انڈیا سے رابطے میں نہیں ہیں۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں فواد چوہدری نے لکھا کہ انڈیا کا دہشت گردی کا نیٹ ورک کافی حد تک توڑ دیا ہے اب قوم پرستوں کے ساتھ بات چیت کا ایجنڈا طے کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے عوامی جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی کے لیے اپنا معاون مقرر کیا ہے۔
خیال رہے کہ شاہ زین بگٹی طلال بگٹی کے بیٹے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی نے اپنی زندگی میں کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے بیٹے طلال بگٹی سے قطع تعلق کر دیا تھا جس کے بعد وہ ڈیرہ بگٹی انتہائی کم جاتے تھے۔ شاہ زین اپنے دادا کی جمہوری وطن پارٹی کے اپنے دھڑے کے رہنما ہیں۔ وہ اس وقت میڈیا میں سامنے آئے جب فروری سنہ 2014 میں انھوں نے اعلان کیا کہ وہ بیدخل بگٹی قبائل کے لوگوں کو لیکر ڈیرہ بگٹی جائیں گے۔ ڈیرہ بگٹی میں 2006 میں فوجی آپریشن اور نواب اکبر بگٹی کی موت کے بعد یہ بگٹی قبائل نقل مکانی کر گئے تھے۔ شاہ زین قومی اسمبلی میں ان بگٹی مہاجرین کی واپسی کے لیے آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں برسوں بعد نواب اکبر بگٹی کے خاندان نے شرکت کی اور شاہ زین بگٹی رکن قومی اسمبلی اور ان کے بھائی گھرام رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور یوں اس علاقے سے سابق صوبائی وزیر سرفراز بگٹی کا سیاسی تسلط ختم ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نواب اکبر بگٹی کا خاندان اس وقت پاکستان اور بیرون ملک مقیم ہے اور یہ منقسم خاندان ہے۔جمہوری وطن پارٹی کے سابق سینئیر رہنما اور کئی سال قید و بند میں رہنے والے نواب اکبر بگٹی کے قریبی ساتھی رفیق کھوسو کا کہنا ہے کہ نواب کے آخری دنوں میں عام طور پر شاہ زین بگٹی کا آنا جانا نہیں تھا اور ان کے والد طلال بگٹی بھی صرف شادی اور غمی میں ہی آ جا سکتے تھے۔ شاہ زین کا وہ سیاسی وزن اور قد نہیں کہ جو باہر بیٹھی ہوئی قیادت ہے اس سے مذاکرات کر سکے، وہ نواب بگٹی کے پوتے ہیں لیکن وہ ان پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ شاہ زین اپنے کزن براہمداغ سے تو بات کر سکتے ہیں لیکن اس وقت جو مزاحمت ہو رہی ہے ان میں یہ اہلیت نہیں کہ ان لوگوں سے رابطہ کریں اور ملاقات کا کوئی بندوست ہو، یہ بہت ہی دشوار ہے۔ شاہ زین کا اگر سیاسی اثر رسوخ ہے تو وہ ان کے اپنے ضلع تک محدود ہے، اس سے پہلے ان کی سیاسی بلوغت کہیں نظر نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے کہ اب ان کی گرومِنگ ہو گئی ہو۔
یاد رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے شاہ زین بگٹی کے دادا نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے تھے جو ناکام ہوئے اور ایک فوجی آپریشن میں ان کی موت ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں آصف علی زرداری نے ’آغاز حقوق بلوچستان‘ کے نام سے پیکیج دیا اور مذاکرات کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد نواز شریف حکومت میں بھی ایک کوشش کی گئی، اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھے۔ ڈاکٹر بلوچ کا خیال ہے کہ تحریک انصاف حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جب تک عسکری قیادت فیصلہ نہیں کرتی سیاسی قیادت کچھ نہیں کر سکتی۔
اس حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کہتے ہیں کہ شاہ زین نواب کے پوتے ہیں اور ساتھ میں رشتے داریاں بھی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیا انھیں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کیونکہ شخصیات تو نواز شریف اور آصف علی زرداری بڑی تھیں لیکن فوجی اداروں نے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ بلوچستان گزشتہ 20، 25 برسوں میں اتنا پچیدہ ہو گیا ہے کہ انھوں نے اعتماد سازی کے لیے چھ نکات دیے تھے۔ مذاکرات پر جانے سے پہلے یہاں گراؤنڈ تو ہموار کرنا چاہیے، وہ مسائل حل کرنے تک کا بھی اختیار ان کے پاس نہیں تھا۔ جب وزیر اعظم سے ملاقات کرتے تو کہتے کہ جا کر آرمی چیف سے ملیں، اتنے بے اختیار وزیراعظم مذاکرات کے لیے کسی کو اپنا مشیر بناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اختر مینگل کا خیال ہے کہ لوگ اتنے باشعور ہیں اور تو کچھ نہیں سمجھ سکتے لیکن آپ کی نیتوں کا تو اندازہ کر سکتے ہیں۔