بندیال کی رخصتی پرپورے پاکستان نے سکھ کا سانس کیوں لیا؟

جسٹس عمر عطا بندیال کے عہد ہوس میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ عدالتیں ایک سیاسی جماعت کی ترجمان ہو گئیں، اس دوراذیت میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ایک سیاسی جماعت کے تمام مقدمات پر آنکھیں بند کر لی گئیں۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ججز کے روپ میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن بے نقاب ہوئے۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ اپنے ادارے کی ناموس، وقار اور عزت کو ایک چیف جسٹس نے اپنے پیروں تلے ہی روند دیا اور پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ایوان عدل کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے شخص کی رخصتی پر ملک بھر میں سکھ کا سانس لیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینیر سیاسی تجزیہ کار عمار مسعود نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے . وہ لکھتے ہیں کہ 2 فروری 2022 سے شروع ہونے والا بے انصافی کا دوراذیت بالاخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس تمام عرصے میں در انصاف سے سائلوں کو سب کچھ ملا سوائے انصاف کے۔ اس عرصے میں انصاف کی بڑی عدالت کے حوالے سے جو نعرے معروف ہوئے، جو سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی، جو بینر لکھے گئے اس میں انصاف کا ذکر کم اور بے انصافی کا شہرہ زیادہ تھا۔ کبھی 3 کا ٹولہ معروف ہوا، کبھی ٹرکوں والے جج ’مشہور‘ ہوئے، کبھی مدر ان لاء کی آڈیو چینلز پر چلی، کبھی آئین کی تشریح کرنے والے نے اپنے فیصلوں کے ذریعے نیا آئین ہی مرتب کردیا۔ تاریخ ہماری عدالتوں کے متنازعہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ انصاف کے نام پر ہر دور میں بٹہ لگایا۔ سیاسی عزائم والے جج ہر دور میں رہے۔ خفیہ والوں کے دست راست ہر عہد میں عدلیہ کے بنچوں میں چھپے رہے۔ سیاسی مقدمات میں چھلانگیں لگانے والے ججز کی ہمارے ہاں کبھی کمی نہیں رہی۔ آمریتوں کے لیے آئین سے راہ نکالنے میں بھی ہماری عدالتیں ماہر۔ سیاست دانوں کو عقوبت خانوں میں پہنچانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ اس قبیح تاریخ کے باوجود انصاف کی جو تضحیک بندیالی دور میں ہوئی، اس سے زیادہ تاریک مثال کسی بھی ملک کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ کبھی کبھی جاوید ہاشمی کی 2014 کے دھرنے کی تقریر بہت یاد آتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا اسٹیبلشمنٹ کے سر پر ہائی برڈ نظام کا بھوت سوار تھا اور آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ عمران خان کو مسیحا بنا کر سامنے لانے کے تمام تر جتن کیے جا رہے تھے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے بھی ایک ایکسٹینشن چھپی ہوئی تھی۔ ایسے میں جاوید ہاشمی نے ایک دن آکر بھانڈا پھوڑ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح عمران خاں کو یقین دلایا گیا کہ آنے والے جج ہمارے ہیں۔ اب جمہوریت پر شب خون مارنے کا وقت آ چلا، اب ہمارا دور آنے والا ہے۔ معاملات طے پا چکے تھے۔ نواز شریف کی جمہوری حکومت کو بھیجنے کا انتظام ہو چکا تھا۔ مانیٹرنگ جج کا نام پہلے ہی سوچا جا چکا تھا۔ چند بد کردار لوگوں کا پول کھولنے کے بعد جاوید ہاشمی کو ذاتی اور سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا لیکن ان کی یہ ایک تقریر اور اس میں کیے گئے انکشافات تاریخ میں رقم ہو گئے۔ ایک لمحہ میں بہت سے لوگوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا۔ ابھی سب خاموش ہیں لیکن ایک وقت آئے گا جب تاریخ ہمارا گریبان ضرور پکڑے گی اور سوال کرے گی کہ کیا اس دور اذیت میں بے انصافی کرنے والے ججز کٹھ پتلیاں تھے؟ ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں تھیں یا پھر ان کی آنکھیں طمع کے ٹرکوں سے چندھیا گئی تھیں؟ ان ججوں کو کسی کو خوشنودی عزیز تھی یا در انصاف کا سارا دھیان ذاتی مفاد پر تھا؟ ان کی راہ میں رکاوٹ آئین کی کوئی شق تھی یا پھر مدر ان لاء کی محبت عود کر آئی تھی؟ یہ کسی کے ہرکارے تھے یا انصاف کی بے توقیری 3کے ٹولے کی ذاتی سازش تھی؟ اہل اقتدار کو 9 مئی کے بعد سمجھ آ گئی تھی کہ عمران خان سے بڑا رانگ نمبر کوئی نہیں۔ تو کیا وجہ ہے ہمیشہ کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کو اس بات کا آخری دن تک ادراک نہیں ہوا۔ اور اس نے آخری دن بھی ایک سیاسی کارکن کی طرح کردار ادا کرتے ہوئے نیب ترامیم کیس میں پارلیمان کے فیصلے کو بے توقیر کر دیا۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اب ایسا نہیں کہ صرف ایک نئے چیف جسٹس آ رہے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ایک نیا دور آ رہا ہے۔ ایک ایسا شخص چیف جسٹس کے عہدے پر متمکن ہو گا جس کے دامن پر کسی سیاسی جماعت کی خوشنودی کی کوئی چھینٹ نہیں، کوئی مہر نہیں۔ جس کے خلاف جانے والوں نے بہت تکلیف دہ مہم چلائی اور پوری کوشش کی کہ وہ شخص چیف جسٹس نہ بن پائے۔ اب وہی چیف جسٹس کے عہدے پر بندیال کو رخصت کرے گا۔ اذیت، تکلیف، جبر اور بے انصافی کے ایک عہد کو رخصت کرے گا۔ یوں لگتا ہے چیف جسٹس نہیں جا رہا اس ملک سے ایک ناکام و نامراد ہائی برڈ نظام رخصت ہو رہا ہے۔ عمار مسعود کے مطابق یوں لگتا ہے کہ چیف جسٹس نہیں ریٹائر ہوا بلکہ آج جنرل باجوہ چلا گیا۔ آج جنرل فیض کی مدت ملازمت ختم ہوئی ۔ آج جنرل شجاع پاشا کی سیاسی درس گاہ کا اختتام ہوا ۔ آج جنرل ظہیر الاسلام ریٹائر ہوا ۔ آج ثاقب نثار کا دور ختم ہوا اور آج جسٹس منیر کا عہد بیت گیا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس کو یہ خیال ستاتا تو ہو گا کہ تاریخ میں ان کا نام کیسے تحریر کیا جائے گا؟ یہ صرف ہماری خوش گمانی ہے، اگر انہیں رتی بھر بھی اس بات کی پرواہ ہوتی کہ وہ تاریخ میں کس نام سے پکارے جائیں گے تو اپنے عہد ہوس میں وہ سب کچھ نہ کرتے جس کا چشم دید گواہ پورا پاکستان ہے ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار کے بعد بندیال بھی رخصت ہوئے۔ اگرچہ من مانے ججز کے نام پر وہ اعلیٰ عدالتوں میں بارودی سرنگیں لگا کر گئے ہیں لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ یہ دور اذیت بیت گیا۔ اس دور بے انصافی کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں جمہوریت آئین اور عدل کو سانس لینے کا کچھ موقع ملے گا۔ آنے والا دور تاریخ میں جانے کیا مقام پائے گا یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جانے والا دور اس ملک کے انصاف کا تاریک ترین دور کہلائے گا جس میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان، آئین پاکستان اور جمہوریت کا ہوا۔

 

Back to top button